ہنگری: مہاجرین کی آباد کاری کے خلاف قانون منظور نہ ہو سکا
صائمہ حیدر
8 نومبر 2016
ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان کی جانب سے ملکی پارلیمنٹ میں مہاجرین کی آبادکاری پر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پابندی عائد کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔
وکٹر اوربان کو ملک میں مہاجرین کی آباد کاری کا قانون منظور کروانےکے لیے دو مزید ووٹوں کی ضرورت تھیتصویر: picture alliance/AA/D. Aydemir
اشتہار
مجوزہ آئینی ترمیم کو ہنگیرین پارلیمنٹ کی کُل ایک سو نناوے نشستوں میں سے ایک سو اکتیس ووٹ حاصل ہوئے۔ پینسٹھ اعشاریہ ساٹھ فیصد اُس مطلوبہ دو تہائی فیصد سے ذرا سی ہی کم ہے جو قانون میں تبدیلی کے لیے درکار تھی۔ ہنگری کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے رائے شماری کا بائیکاٹ کیا تھا۔
مہاجرین کی یورپ میں منصفانہ تقسیم کے یورپی یونین کے منصوبے کی مسلسل مخالفت کرنے والے وکٹر اوربان کو ملک میں مہاجرین کی آباد کاری کا قانون منظور کروانےکے لیے صرف دو مزید ووٹوں کی ضرورت تھی۔ جس کے بعد انہیں اِس بل کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکتی تھی۔
مہاجر مخالف یوبک جماعت اِس حوالے سے اوربان کی فطری اتحادی ہے لیکن فی الوقت یہ سوشلسٹوں کے ساتھ ملک کی دوسری سب سے مقبول جماعت بننے کی کوشش میں مصروف ہے۔ رواں ماہ اوربان کو یوبک جماعت کی طرف سے اُس وقت دھچکا لگا جب یوبک کے سربراہ گابور وونا نے اوربان سے براہِ راست ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا کہ اُن کی جماعت صرف اس صورت میں قانون کے حق میں ووٹ دے گی اگر حکومت دولت مند غیر ملکیوں کے لیے بنائی گئی متنازعہ ’’ کیش فار ریزیڈنسی بانڈ‘‘ اسکیم کو ختم کر دے اور اِن میں خاص طور سے روس، چین اور مشرقِ وسطی کے ممالک کو شامل کیا جائے۔
ہنگری نے مہاجرین کے لیے یورپی یونین کے کوٹا سسٹم کی مخالفت کی تھیتصویر: picture-alliance/AP Photo/P.David Josek
یوبک ایک عرصے سے ہنگری میں رہائش کے لیے اِس بانڈ اسکیم کی مخالفت کرتی آ رہی ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بانڈ مشکوک غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے خریدا جاتا ہے اور یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی بن سکتا ہے یہاں تک کہ جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ بھی اِسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
یوبک پارٹی کے سربراہ وونا کا کہنا تھا،’’ نہ امیر اور نہ ہی غریب مہاجرین کو ہنگری میں آباد ہونے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘ ہنگری میں بر سرِ اقتدار جماعت ’فی ڈیس‘ اور مہاجر مخالف جماعت ’یابک‘ کے درمیان اقتدار کے لیے جدوجہد بھی جاری ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آج بروز منگل آٹھ نومبر کو ہنگیرین پارلیمنٹ میں مہاجرین کے مسئلے پر قانون پاس کرنے کے لیے ہونے والی ووٹنگ ملک میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے منظر نامہ تیار کر دے گی۔
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔