ہنگری: بی ایم ڈبلیو کی پہلی فیکٹری، ایک ارب یورو کا منصوبہ
31 جولائی 2018
جرمنی کی مشہور کار ساز کمپنی بی ایم ڈبلیو ہنگری میں اپنی پہلی فیکٹری کی تعمیر کے لیے ایک ارب یورو کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اس فیکٹری میں اس کمپنی کی روایتی کاروں کے علاوہ الیکٹرک بی ایم ڈبلیو گاڑیاں بھی تیار کی جائیں گی۔
اشتہار
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے منگل 31 جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق وسطی یورپی ملک ہنگری میں، جو یورپی یونین کا رکن بھی ہے اور جہاں کارکنوں کی اجرتیں مقابلتاﹰ بہت کم ہیں، پہلے بھی کئی جرمن کار ساز اداروں نے اپنے پیداواری یونٹ قائم کر رکھے ہیں۔
بی ایم ڈبلیو نے، جس کا نام جنوبی جرمن صوبے باویریا کے نام کی مناسبت سے باویرین موٹر ورکس (BMW) کا مخفف ہے، منگل اکتیس جولائی کے روز اعلان کیا کہ یہ کمپنی پہلی بار ہنگری میں اپنی ایک فیکٹری قائم کرے گی، جس کے لیے اس وسطی یورپی ملک میں ایک ارب یورو (1.2 ارب ڈالر کے برابر) سرمایہ کاری کی جائے گی۔
یہ فیکٹری ہنگری کے شہر ڈَیبریٹسَین (Debrecen) کے نواح میں تعمیر کی جائے گی اور وہاں سالانہ بنیادوں پر ڈیڑھ لاکھ روایتی اور الیکٹرک بی ایم ڈبلیو گاڑیاں تیار کی جا سکیں گی۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کی وجہ سے ہنگری میں ملازمتوں کے قریب ایک ہزار نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
اس بارے میں باویرین موٹر ورکس کے چیئرمین ہارالڈ کرُوئگر نے صحافیوں کو بتایا، ’’بی ایم ڈبلیو گروپ کی سوچ یہ ہے کہ اسے عالمی سطح پر اپنی کاروباری سرگرمیوں میں تیزی اور ترقی لانا چاہیے اور ہنگری میں اس نئے پروڈکشن پلانٹ کی تعمیر کا فیصلہ بھی اسی سوچ کا حصہ ہے۔‘‘
ہارالڈ کرُوئگر نے کہا، ’’چین، میکسیکو اور امریکا میں فیصلہ کن سرمایہ کاری کرنے کے بعد ہم اب یورپ میں بھی اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینا چاہتے ہیں تاکہ عالمی سطح پر ایشیا، امریکا اور یورپ جیسے براعظموں میں اپنی کمپنی کی پیداوار کو ایک عالمگیر توازن کا حصہ بنا سکیں۔‘‘
جرمنی کی بہترین کاریں، کتنی ہی یادیں جن سے جڑی ہیں
یہ گاڑیاں دیکھ کر کاروں سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کی آنکھیں بھیگ سکتی ہیں۔ فالکس ویگن سے بی ایم ڈبلیو اور اوپل سے مرسیڈیز بینز تک، جرمن کار ساز اداروں نے کئی شان دار ماڈلز تیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
ٹریبنٹ 601 (1964)
ٹریبنٹ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے ویسی ہی تھی جیسی مغربی جرمنی میں فالکس ویگن بیٹل تھی، یعنی عام افراد میں مقبول۔ اسے تیار کرنا سستا تھا، کیوں کہ اس کی بیرونی باڈی پلاسٹک سے بنائی جاتی ہے۔ جب دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی جرمن سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیگر علاقوں کا رخ کیا، تو یہ گاڑی بھی ہر جگہ دکھائی دینے لگی۔ اب بھی 33 ہزار ٹریبنٹ گاڑیاں جرمن سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Imago/Sven Simon
فالکس ویگن بیٹل (1938)
فالکس ویگن کا یہ سب سے بااعتبار ماڈل کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کار کے 21 ملین یونٹس تیار کیے گئے۔ اسے دنیا کی سب سے مشہور گاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو سن 1938 سے 2003 تک تیار کی جاتی رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فالکس ویگن ٹی ون (1950)
فالکس ویگن کی یہ کیمپر گاڑی جرمنی میں ’بُلی‘ کے نام سے بھی مشہور ہے اور اسے ہپی تحریک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فالکس ویگن ابتدا میں اس گاڑی سے خوش نہیں تھی، مگر اس کی فروخت پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب تک فالکس ویگن کی 10 ملین بسیں فروخت ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اٹھارہ لاکھ ٹی ون ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. Reitz
میسرشمِٹ کیبن اسکوٹر (1953)
تین پہیوں والی یہ ایروڈائنامکس گاڑی میسر شمِٹ نامی ہوائی جہاز بنانے والا ہی تیار کر سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی پیداوار رک گئی تھی، مگر پھر کمپنی نے انجینیئر فرِٹس فینڈ کے ساتھ مل کر فلِٹسر کار متعارف کروائی۔ یہ پارٹنر شپ طویل المدتی نہیں تھی۔ میسرشِمٹ اس کے بعد دوبارہ جہاز سازی میں مصروف ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مرسیڈیز تین سو ایس ایل (1954)
یہ کار ’گُل وِنگ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، وجہ ہے اس کے پروں کی طرح کھلتے دروازے۔ اس ریسنگ گاڑی کی وجہ سے مرسیڈیز ایک مرتبہ پھر حیرت انگیز طور پر موٹر اسپورٹس کھیل میں واپس آئی۔ اس گاڑی نے ریسنگ کے متعدد اہم مقابلے جیتے اور پھر سڑکوں پر دکھائی دینے لگی۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو اِسیٹا (1955)
یہ گاڑی تیز رفتار تو نہیں تھی، مگر سن 1955 سے 1962 تک بی ایم ڈبلیو نے اس سے مالیاتی استحکام حاصل کیا۔ یہ موٹر سائیکل کے انجن والی گاڑی کم قیمت اور کارگر تھی۔ اسے ببل کار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فریج کی طرح سامنے سے کھلتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
گوگوموبائل (1955)
یہ چھوٹی گاڑی بھی گاڑیوں کو پسند کرنے والوں میں مقبول ہے۔ کمپنی کے مالک کے پوتے ’ہانس گلاز‘ کی عرفیت ’گوگو‘ کو اس گاڑی سے جوڑا گیا۔ دیگر چھوٹی گاڑیوں کے مقابلے میں گوگو میں چار افراد سوار ہو سکتے تھے۔ صرف ایک اعشاریہ چھ میٹر کی جگہ کی وجہ سے گو کہ ان افراد کو ذرا سکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس گاڑی کو چلانے کے لیے صرف موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس درکار ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
پورشے نائن ون ون (1963)
پورشے کی نائن ون ون گاڑی کار سازی کی تاریخ کی سب سے زیادہ لمبے عرصے سے بنائی جانے والی گاڑی ہے۔ اس کے پیچھے قریب نصف صدی کی تاریخ ہے۔ یہ پورشے گاڑیوں کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ گاڑی کی بناوٹ ایسی ہے کہ پورشے نائن ون ون فوراﹰ پہچانی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance//HIP
مرسیڈیز بینز 600 (1964)
اس گاڑی میں ٹیلی فون، ایرکنڈیشنر، فریزر ڈبہ اور دیگر لگژری سہولیات، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے سب سے لگژری گاڑی بناتے تھے۔ بہت سی مشہور شخصیات نے یہ گاڑی استعمال کی، جس میں پوپ سے جان لینن تک شامل تھے۔ جرمن حکومت کے لیے یہ کچھ مہنگی تھی، اس لیے وہ اہم مواقع پر اسے کرائے پر لیتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سِیّارٹو کے مطابق ان کے ملک میں اس فیکٹری کے قیام کے فیصلے سے پہلے ہونے والے مذاکرات 14 ماہ تک جاری رہے اور اس بات چیت کی تکمیل کے بعد اب کیا جانے والا فیصلہ ’ہنگری کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف ہنگری کی معیشت کو تقویت ملے گی بلکہ ہنگری اور جرمنی کے باہمی اقتصادی روابط بھی مزید مضبوط ہوں گے۔
یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق بی ایم ڈبلیو سے پہلے کئی دیگر جرمن کار ساز ادارے بھی ہنگری میں اپنے پیداواری یونٹ قائم کر چکے ہیں۔ ان میں سے آؤڈی اور مرسیڈیز گاڑیاں بنانے والی جرمن کمپنیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ہنگری جرمن صنعتی اداروں کے لیے اس لیے بھی ایک پرکشش پیداواری منڈی ہے کہ وہاں کارکنوں کی اوسط اجرتیں جرمنی کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم ہیں۔
بی ایم ڈبلیو کے اس وقت مختلف یورپی ممالک میں 12 پیداواری یونٹ پہلے ہی سے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے آٹھ جرمنی میں ہیں، تین برطانیہ میں اور ایک آسٹریا میں۔ ہنگری میں اس کمپنی کی پہلی فیکٹری بی ایم ڈبلیو کی یورپ میں مجموعی طور پر 13 ویں فیکٹری ہو گی۔
م م / ا ا / اے ایف پی
BMW کو تیسرے کوارٹر میں ریکارڈ منافع
جرمن لگژری کار ساز ادارے BMW کو رواں برس کی سہ ماہی میں ریکارڈ منافع ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
توقعات سے بھی بڑھ کر منافع
جرمن شہر میونخ میں قائم دنیا کی اس سب سے بڑی کار ساز کمپنی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اسے اس سہ ماہی میں توقعات سے بڑھ کر منافع حاصل ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Citypress24/Boenisch
دو بلین ڈالر کا خالص منافع
بی ایم ڈبلیو کے مطابق اسے گزشتہ برس یعنی 2015ء کی تیسری سہ ماہی میں 1.6 بلین یورو کا منافع ہوا تھا تاہم رواں برس کی اس تیسری سہ ماہی میں اسے 1.8 بلین یورو کا خالص منافع ہوا ہے یہ رقم دو بلین امریکی ڈالرز کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Lee
بی ایم ڈبلیو کی حکمت عملی تسلسل سے جاری
بی ایم ڈبلیو کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیرالڈ کرؤگر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بی ایم ڈبلیو اپنی مضبوط حکمت عملی پر مسلسل عمل پیرا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader
نو ماہ میں 5.5 بلین کا منافع
رواں برس کے آغاز سے ستمبر کے آخر تک بی ایم ڈبلیو کے خالص منافع میں 11.7 اضافہ ہوا ہے اور یہ 5.5 بلین یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Spata
23 بلین یوروز سے زائد کی فروخت
دنیا کی اس سب سے بڑی لگژری کاریں تیار کرنے والی کمپنی نے رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں 23.4 بلین یورو مالیت کی کاریں فروخت کی ہیں۔
تصویر: DW/A. Chatterjee
تمام گروپس کے انفرادی یونٹس کی فروخت میں اضافہ
بی ایم ڈبلیو گروپ میں اب مِنی اور رولز رائس ڈویژن بھی شامل ہیں۔ اس کمپنی کے ہر گروپ کی انفرادی یونٹس کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
گزشتہ برس کے مقابلے سات فیصد زائد کاروں کی فروخت
بی ایم ڈبلیو گروپ نے 2016ء کی تیسری سہ ماہی میں 583,000 کاریں فروخت کی ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ برس کی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں 7.1 فیصد زائد ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
ریسرچ اور ڈویلپمنٹ بی ایم ڈبلیو کی ترجیح
چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیرالڈ کرؤگر کے مطابق بی ایم ڈبلیو اپنے منافع کو الیکٹرک اور بغیر ڈرائیور کی کاروں کی تیاری کے لیے تحقیق میں بھی استعمال کر رہی ہے۔