ہنگری میں مزید تارکین وطن کی آمد: ٹرین روک دی گئی
3 ستمبر 2015یورپ کی طرف تارکین وطن کے بہاؤ کا بحران روز بروز سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ جان ہتھیلی پر لیے یورپ کی سرحدوں میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن اور پولیس کے ساتھ ہونے والا آئے دن کا تصادم یورپ کی تارکین وطن سے متعلق ناقص پالیسی کے ضمن میں عالمی میڈیا کے لیے غیر معمولی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔
ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں دو روز سے مرکزی ٹرین اسٹیشن کو تارکین وطن کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ہنگری کے حکام نے ٹرین سے اترنے والے تارکین وطن کو بوڈاپسٹ سے آسٹریا کی طرف جانے والی ایک ٹرین میں زبردستی سوار کیا۔ یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ تارکین وطن اپنے بچوں سمیت ٹرین کی کھڑکی اوردروازوں سے اندر داخل ہونے کے لیے کوششیں کر رہے تھے۔
یہ ٹرین تاہم آسٹریا کی سرحد کی طرف تک پہنچنے سے پہلے ہی بوڈا پسٹ سے مغرب کی طرف واقع شہر بشکے میں رک گئی۔ اس جگہ ہنگری کا مائیگریشن ریسپشن مرکز قائم ہے۔ یہاں پولیس نے ٹرین میں سوار تمام تارکین وطن کو ٹرین سے نکلنے کا حکم جاری کر دیا۔ پولیس نے ابھی یہ ایک ٹرین ہی خالی کروائی تھی کے تارکین وطن سے بھری پانچ دیگر ٹرینیں اس اسٹیشن کے قلب تک پہنچ چُکی تھیں۔ اس پر سوار تارکین وطن زبردستی کسی مہاجر کیمپ میں بھرتی کیے جانے کے خوف سے پیشگی طور پر ہی ٹرین کی کھڑکیوں پر ہاتھ مار کر اور چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے،’’ ,No Camp,No Camp‘‘۔
بے یار و مددگار تارکین وطن اپنے بچوں کے ساتھ ایک ٹرین سے دوسری کی طرف بھاگتے اور پولیس سے متصادم ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک میاں بیوی اپنے تین نو عمر بچوں کے ساتھ احتجاج کے طور پر ٹرین کی ایک پٹری پر جا کر لیٹ گئے۔ درجنوں پولیس اہلکاروں کی کوشش سے اس پورے خاندان کو ٹرین کی پٹری پر سے اُٹھایا گیا۔
1990 ء میں ہونے والی سابق یوگوسلاویا کی جنگ کے بعد سے پورپ کو درپیش تارکین وطن سے متعلق اب تک کے بدترین بحران میں ہزاروں تارکین وطن سمندری راستے یا یورپی سرحدی علاقوں تک پہنچنے کے دشوار مرحلے کے دوران اپنی زندگیاں گنوا چُکے ہیں۔
جمعرات کو یورپی میڈیا میں ہر جگہ چھپنے والی ایک تین سالہ کُرد شامی بچے کی لاش کی تصویر تمام یورپ کے باشندوں کے جذبات کو جھنجھوڑنے کا سبب بنی ہے۔ اس بچے کی لاش ترکی کے ایک سیاحتی ساحل پر سمندری پانی کے تھپیڑوں کی وجہ سے پہنچی تھی جسے ایک ترک پولیس اہلکار نے اُٹھایا اور اس کی تصویر ہر اُس انسان کو نمدیدہ کرنے کا سبب بنی ہے جو سینے میں دل رکھتا ہے اور اس بہیمانہ واقع پر شدید صدمے کا شکار ہے۔
دریں اثناء فرانسیسی وزیر اعظم مانول فالس نے ٹوئٹر پر تین سالہ شامی بچے کی لاش کی تصویر پر ہونے والے تبصروں میں اپنا تبصرہ بھی شامل کرتے ہوئے تحریر کیا،’’ اُس کا ایک نام تھا: ایلان کُردی۔ فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ یورپ بھر میں بیداری ناگزیر ہے‘‘۔
اس حادثے میں ایلان سمیت وہ 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں جو 23 تارکین وطن کے اُس گروپ میں شامل تھے جو یونان کے ایک جزیرے تک پہنچنا چاہتا تھا۔