ہنگری میں مہاجرین مخالف قانون، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تنقید
عاطف توقیر
15 فروری 2018
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہنگری میں مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کو ہدف بنانے سے متعلق حکومت کو اختیارات دینے والے قانونی بل پر سخت تنقید کی ہے۔
اشتہار
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس بل کے تحت حکومت مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کسی بھی گروپ یا تنظیم کو، جسے وہ پسند نہ کرے، ہدف بنا سکے گی۔ بدھ کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاکہ یہ قانونی بل حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مہاجرین کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کو کام کرنے سے روک دے۔ انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم نے اس بل کو ’’انتہائی افسوس ناک اور سول سوسائٹی پر ایک غیرمنصفانہ حملے‘ سے تعبیر کیا ہے۔
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔
یہ مجوزہ قانونی بل منظوری کے لیے منگل کو پارلیمان میں جمع کرایا گیا تھا۔ اس بل میں تارکین وطن کے لیے معاونت، انتظام یا سرمائے سے مدد کرنے والی تنظیموں کو ملک میں کام کرنے کے لیے نئی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ اس بل میں ایسی تنظیموں کو کام کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہو گی اور اپنی سرگرمیوں سے متعلق آگاہی بھی دینا ہو گی۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے تارکین وطن کے لیے حاصل کردہ سرمائے پر انہیں 25 فیصد بہ طور محصولات سرکاری خزانے میں جمع کرانا ہو گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ کے لیے ڈائریکٹر گاؤری فان گُلَک کے مطابق، ’’یہ تجاویز ملکی سلامتی یا سرحدوں کے تحفظ سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ اس کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ افراد جو لوگوں کی مدد کر رہے ہیں یا جو آواز اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں، انہیں دبایا جائے۔‘‘
یہ مجوزہ قانون ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کی مہاجرین مخالف مہم کا حصہ ہے۔ حکومت نے اس بل کا نام ’اسٹاف سوروس‘ رکھا ہے۔ واضح رہے کہ ہنگریئن نژاد امریکی جارج سوروس نے چند برس قبل کہا تھا کہ وہ یورپ میں تارکین وطن کو لانا چاہتے ہیں، تاہم تارکین وطن سے متعلق اپنے اس موقف میں وہ متعدد مرتبہ تبدیلی کر چکے ہیں۔
ایسی تصاویر، جنہوں نے دنیا کو دہلا دیا
شامی مہاجر ایلان کُردی کی ساحل سمندر پر پڑی لاش کی تصویر لاکھوں مہاجرین کے مصائب کی علامت بن گئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ایسی ہی دیگر آٹھ تصویریں جو عالمی سیاست میں علامتی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
’نیپام گرل‘
جنوبی ویت نام کے ایک گاؤں میں ’نیپام بم‘ کے دھماکے کے بعد خوفزدہ اور سہمے ہوئے بچے۔ اس بم سے متاثر ہونے والی نوسالہ لڑکی ’پھن کِم پُھک‘ نے اپنے کپڑے اتار دیے تھے کیونکہ ان میں آگ لگ چکی تھی۔ یوں وہ زندہ بچنے میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔ اس تصویر نے ویت نام جنگ سے متعلق عوامی رائے کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1973ء میں فوٹو گرافر نِک اُٹ کو اس تصویر پر پولٹزر ایوارڈ بھی ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
گردوغبار سے اٹی ہوئی خاتون
11 ستمبر2001ء کو جب نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے تو تباہی کا عالم دیکھنے میں آیا۔ یہ تصویر بھی اسی وقت لی گئی تھی۔ اس تصویر میں مارسی بارڈر نامی ایک ایسی خاتون گرد و غبار میں ڈھکی نظر آ رہی ہے، جو اس تباہی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں تھی۔ بارڈر چھبیس اگست 2015ء کو معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئی۔ وہ اسی سانحے کی اثرات کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP
ٹینک کے سامنے
پانچ جون 1989ء کو یہ چینی نوجوان اچانک ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے دارالحکومت بیجنگ میں ٹینکوں کے کاروان کو رکنا پڑ گیا تھا۔ یہ تصویر اُس دن سے صرف ایک روز پہلے لی گئی تھی، جب چینی فوج نے بیجنگ کے تیانمن اسکوائر پر حکومت مخالف مظاہروں کو سنگدلی سے کچل دیا تھا۔ اس شخص کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کون تھا۔
تصویر: Reuters/A. Tsang
بینو اوہنے زورگ کی ہلاکت
دو جون 1967ء کو ایران کے شاہ کی جرمنی آمد پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اسی موقع پر جرمن طالب علم بینو اوہنے زورگ گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اسی طالب علم کی ہلاکت کے باعث ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں بائیں بازو کی تحریک میں انتہا پسندانہ رجحانات شامل ہو گئے تھے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تھا تو اوہنے زورگ کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھی۔
تصویر: AP
کینیڈی کا قتل
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو نومبر 1963ء میں ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ابراہم زپروڈر اس صدارتی قافلے کی کوریج پر متعین تھے اور انہوں نے کینیڈی پر اس حملے کے لمحے کو بھی فلمبند کر لیا تھا۔ فریم 313 میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گولی کینیڈی کے سر میں لگی۔ تاہم ابراہم زپروڈر اس فریم کو شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میونخ میں قتل عام
میونخ میں 1972ء میں منعقد ہوئے اولمپک مقابلوں کے دوران اسرائیلی ٹیم کے گیارہ ایتھلیٹس کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ بعدازاں فلسطینی دہشت گرد گروہ ’بلیک ستمبر‘ نے انہیں ہلاک بھی کر دیا تھا۔ اس تاریخی تصویر میں ایک اغوا کار کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: dapd
افغان لڑکی
اسٹیو مککری کا بنایا ہوا یہ پورٹریٹ 1985ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکی پاکستان میں بطور مہاجر زندگی بسر کر رہی تھی لیکن یہ تصویر افغانستان میں سوویت قبضے اور دنیا بھر میں افغان مہاجرین کی زبوں حالی کی ایک علامت بن گئی تھی۔ بارہ سالہ اس بچی کی شناخت 2002ء تک پوشیدہ ہی رہی تھی۔ اس سے قبل شربت گلہ نامی اس لڑکی نے اپنا یہ پورٹریٹ بھی نہیں دیکھا تھا۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
ہنگری میں اس مجوزہ قانون پرکونسل آف یورپ میں شہری حقوق کی نمائندہ عالمی تنظیموں نے سخت تنقید کی ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق اس بل کے اثرات فقط مہاجرین کے معاملے پر نہیں پڑیں گے، بلکہ دیگر امور بھی اس سے متاثر ہوں گے۔