1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری میں مہاجرین کا داخلہ اور مشکل

عاطف بلوچ، روئٹرز
20 مارچ 2017

ہنگری کے وزیردفاع نے ملک کے جنوبی سرحدی علاقے میں ایک چھوٹے فوجی اڈے کا افتتاح کر دیا ہے۔ یہاں اس اڈے کے قیام کا مقصد ملک میں تارکین وطن کی آمد کو روکنا ہے۔

Ungarn Zaun Grenze Ausbau Serbien
تصویر: picture alliance/AP Photo/Z.G.Kelemen

ہنگری کے وزیردفاع اسٹیفان سیمیچسکو کے مطابق اس فوجی اڈے کے قیام سے ملک میں تارکین وطن کے داخلے کو روکنے میں مدد ملے گی۔ ہنگری اس سے قبل سربیا کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک جدید دیوار بھی تعمیر کر چکا ہے۔

سیمیچسکو کے مطابق یہ فوجی اڈا آسٹریا کے فوجیوں کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے، جس میں ڈیڑھ سو فوجی تعینات ہوں گے، جو ملکی سرحد کی نگرانی کریں گے۔

سیمیچسکو نے اس فوجی اڈے کے افتتاح کے موقع پر فوجیوں سے خطاب میں کہا، ’’سرحد کی دفاع اور اس کی تکریم ضروری ہے، تاکہ ہزاروں لاکھوں مہاجرین پھر سے ہنگری میں داخل نہ ہوں۔‘‘

ہنگری نے اپنی سرحدوں پر نگرانی کا عمل سخت ترین کر دیا ہےتصویر: Reuters/L. Balogh

انہوں نے مزید کہا، ’’ہمارا سب سے اہم مشترکہ مفاد یہ ہے کہ ہم ہنگری کے شہریوں، اپنے خاندانوں اور عام شہریوں کو تحفظ دیں۔‘‘

یہ فوجی اڈا دارالحکومت بوڈاپیسٹ سے 220 کلومیٹر جنوب میں 90 کنٹینروں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ جنوری کے آغاز سے اب تک ایسے چار فوجی اڈے قائم کیے جا چکے ہیں، تاکہ فوجیوں کو سربیا کی سرحد کے قریب گشت میں آسانی ہو۔

اس فوجی اڈے کے قیام سے سرحدی علاقے میں فوج اور پولیس کو گشت کرنے میں آسانی ہو گی۔

ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان نے گزشتہ ہفتے سربیا کی سرحد کے قریب ایک جدید دیوار کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے مہاجرین ملک میں داخل نہیں ہو پائیں گے۔ اس دیوار پر رات میں دیکھنے کی صلاحیت والے کیمرے اور حرکت جانچ لینے والے سینسر بھی نصب ہیں۔ اوربان مہاجرین کے سخت مخالف ہیں اور مہاجرین کے بحران کے عروج میں ہنگری ہی وہ پہلا ملک تھا، جس نے اپنی سرحدیں تارکین وطن کے لیے بند کی تھیں۔ ہنگری کا کہنا ہے کہ اگر ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین سے متعلق ڈیل ختم ہوئے، تو مہاجرین کا سیلاب پھر سے یورپی یونین میں داخلے کی کوشش کرے گا اور اس صورت حال سے قبل یورپی یونین کو اپنی سرحدوں کی نگرانی سخت ترین کر دینا چاہیے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں