ہنگری کا مسئلہ: مہاجرین کی مخالفت بھی، کارکنوں کی ضرورت بھی
شمشیر حیدر13 جولائی 2016
ہنگری کی کم ہوتی ہوئی آبادی وزیر اعظم وکٹر اوربان کی مہاجرین مخالف حکومت کے لیے ایک دردِ سر بن گئی ہے۔ اوربان اپنے وطن میں مہاجرین کی آمد کے خلاف تو ہیں لیکن ہنگری کی معیشت میں افرادی قوت کی کمی بھی ہے۔
اشتہار
ہنگری نے 2004ء میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی، جس کے بعد سے اب تک اس کے چار لاکھ شہری ترک وطن کر چکے ہیں۔ گزشتہ پینتیس برسوں کے دوران ہنگری کے کام کاج کی عمر کے ساڑھے آٹھ لاکھ شہری دیگر یورپی ممالک میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔
1980ء کی دہائی کے بعد سے اس سابق کمیونسٹ ریاست میں بچوں کی پیدائش کی شرح بھی یورپ بھر میں سب سے کم ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ملک کی مجموعی آبادی اب دس ملین یعنی ایک کروڑ سے بھی کم رہ گئی ہے۔
ہنگری کی معاشی صورتحال پر حال ہی میں ملکی صنعتوں اور آجروں کی تنظیم (MGYOSZ) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک کی ایک چوتھائی صنعتوں کو مطلوبہ افرادی قوت تلاش کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’ہنگری کی معیشت کی گاڑی اس لیے نہیں چل سکتی کیوں کہ اس کے ٹائر ہی نہیں ہیں۔‘‘
تارکین وطن کے بارے میں پانچ اہم حقائق
01:27
مشرقی یورپی ملک ہنگری کی آبادی سے تین مزید افراد کم ہونے والے ہیں کیوں کہ ایک اور خاندان جلد ہی ملک چھوڑ کر جانے والا ہے۔ ایک کال سینٹر میں کام کرنے والے مارک سٹرن اور ان کی اہلیہ ریٹا، جو تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اپنے نومولود بچے کے ساتھ عنقریب آئرلینڈ منتقل ہونے والے ہیں۔
بتیس سالہ ریٹا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’وہاں ہمارے بہت سے دوست ہیں۔ ہم انگلش بول سکتے ہیں اور آئرلینڈ میں اچھی ملازمت حاصل کرنے کے کافی مواقع موجود ہیں۔‘‘
بوڈاپسٹ حکومت اپنے شہریوں کو واپس ہنگری لانے کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے۔ وکٹر اوربان کی حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے ایک منصوبے کے تحت وطن واپس آنے والے ملکی شہریوں کو حکومت کی جانب سے فی کس تین ہزار یورو تحفے میں دیے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال جون کے مہینے میں یہ منصوبہ شروع کیا گیا تھا لیکن اب تک صرف ایک سو لوگوں نے ہی اس ’نقد پیشکش‘ سے فائدہ اٹھایا ہے۔
ہنگری کے صنعتی ادارے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ملک میں افرادی قوت کی کمی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ لیکن ایسی حکومت، جو اپنی تشہیری مہم میں غیر ملکیوں کو خبردار بھی کر رہی ہو کہ وہ ہنگری میں کوئی ملازمت تلاش نہ کریں، وہ دوسرے ممالک سے اپنے ہاں افرادی قوت کیسے لائے گی؟
وکٹر اوربان بارہا کہہ چکے ہیں کہ ملک میں افرادی قوت کی کمی غیر ملکیوں، خاص طور پر مسلمان ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو پناہ دے کر پوری نہیں کی جا سکتی۔ تاہم اقتصادی امور کے ملکی وزیر میہائل وارگا کا کہنا ہے کہ ہنگری میں یورپی یونین کی رکنیت نہ رکھنے والے ممالک کے شہریوں کو کام کرنے کی اجازت دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔