ہنگری کا نیا آئین متنازعہ، ہزاروں افراد کا مظاہرہ
3 جنوری 2012![](https://static.dw.com/image/15641499_800.webp)
بوڈاپیسٹ میں ذرائع ابلاغ کی حکومتی اتھارٹی کے سابق سربراہ Laszlo Majtenyi نے ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے دستور کے دفاع کا حلف اٹھایا تو ضرور ہے لیکن اسے متنازعہ بنا کر انہوں نے دستور کو پرے پھینک دیا ہے۔ مظاہرے کے وقت وزیر اعظم وکٹر اوبان (Viktor Orban) اسٹیٹ اوپیرا کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس مناسبت سے پیر کی شام مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے Laszlo Majtenyi کا کہنا تھا کہ آج کی رات اوپیرا منافقت کا گھر بن گیا ہے اور شہر کی سڑکیں دستوری اقدار کے احترام کا نشان ہیں۔
ہنگری کی اپوزیشن اور سول حقوق کے سرگرم کارکنان کے مطابق وکٹر اوربان کی سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور اس اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم نے ایسے دستور کو منظور کیا ہے جس سے جمہوری نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام شدید متاثر ہوا ہے۔ ریاست کے منافی کئی دستوری امور کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بغیر پیرول پر رہائی کے، لمبی مدت کی سزاؤں کا سامنا ہو گا۔ حکومت مخالف سیاسی رہنماؤں کے مطابق وزیر اعظم کی سیاسی پارٹی نے عدلیہ پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے علاوہ مرکزی بینک، مذہبی گروپوں اور میڈیا کو حکومت کی حاکمیت تلے کر دیا ہے۔
دوسری جانب ہنگری کے صدر پال شمٹ نے کہا ہے کہ عوام کو فخر ہونا چاہیے کہ انہیں ایک نیا دستور حاصل ہو گیا ہے۔ صدر کے مطابق ایک نیا دستور ہنگری کے لیے بہت عرصے سے مطلوب تھا اور کمیونزم کے زوال کے بعد اس نئے دستور کی اشد ضرورت تھی۔ ہنگری کے صدر کے مطابق طویل مشاورت کے بعد ہی اس آئین کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ صدر شمٹ کے مطابق ہمارا بنیادی دستور خاندان، قانون، نظر و ضبط، گھر، روزگار اور صحت جیسی اہم اقدار کا ضامن ہے۔
یورپی یونین اور امریکہ سمیت دیگر کئی بین الاقوامی ادارے وزیر اعظم وکٹر اوربان کے پیش کردہ دستور کی کئی شقوں پر تنقید کر چکے ہیں۔ ہنگری کا نیا دستور یکم جنوری سے نافذالعمل ہو گیا ہے۔ اس کی منظوری کے وقت اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا۔ دستور کی منظوری گزشتہ سال اپریل میں ہوئی تھی۔ بوڈاپیسٹ حکومت کی انٹرنینشل مانیٹری فنڈ کے ساتھ گزشتہ سال ہونے والی بات چیت نئے دستور کی وجہ سے نامکمل رہی تھیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق رواں برس ہنگری اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے امکاناً کساد بازاری کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل