1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری کا نیا آئین متنازعہ، ہزاروں افراد کا مظاہرہ

3 جنوری 2012

ہنگری کے نئے دستور کے خلاف ہزاروں افراد نے دارالحکومت بوڈا پیسٹ میں ایک بڑے مظاہرے میں حصہ لیا۔ مظاہرین اس دستور کے تحت کئی شعبوں پر حکومتی کنٹرول پر شاکی دکھائی دیتے ہیں۔

تصویر: REUTERS

بوڈاپیسٹ میں ذرائع ابلاغ کی حکومتی اتھارٹی کے سابق سربراہ Laszlo Majtenyi نے ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے دستور کے دفاع کا حلف اٹھایا تو ضرور ہے لیکن اسے متنازعہ بنا کر انہوں نے دستور کو پرے پھینک دیا ہے۔  مظاہرے کے وقت وزیر اعظم وکٹر اوبان (Viktor Orban) اسٹیٹ اوپیرا کی پرفارمنس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس مناسبت سے پیر کی شام مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے Laszlo Majtenyi کا کہنا تھا کہ آج کی رات اوپیرا منافقت کا گھر بن گیا ہے اور شہر کی سڑکیں دستوری اقدار کے احترام کا نشان ہیں۔

نئے دستور کے خلاف ہزاروں افراد نے مظاہرے میں شرکت کیتصویر: REUTERS

ہنگری کی اپوزیشن اور سول حقوق کے سرگرم کارکنان کے مطابق وکٹر اوربان کی سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور اس اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم نے ایسے دستور  کو منظور کیا ہے جس سے جمہوری نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام شدید متاثر ہوا ہے۔ ریاست کے منافی کئی دستوری  امور کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بغیر پیرول پر رہائی کے، لمبی مدت کی سزاؤں کا سامنا ہو گا۔ حکومت مخالف سیاسی رہنماؤں کے مطابق وزیر اعظم کی سیاسی پارٹی نے عدلیہ پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے علاوہ مرکزی بینک، مذہبی گروپوں اور میڈیا کو حکومت کی حاکمیت تلے کر دیا ہے۔

دوسری جانب ہنگری کے صدر پال شمٹ نے کہا ہے کہ عوام کو فخر ہونا چاہیے کہ انہیں ایک نیا دستور حاصل ہو گیا ہے۔ صدر کے مطابق ایک نیا دستور ہنگری کے لیے بہت عرصے سے مطلوب تھا اور کمیونزم کے زوال کے بعد اس نئے دستور کی اشد ضرورت تھی۔ ہنگری کے صدر کے مطابق طویل مشاورت کے بعد ہی اس آئین کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ صدر شمٹ کے مطابق ہمارا بنیادی دستور خاندان، قانون، نظر و ضبط، گھر، روزگار اور صحت  جیسی اہم اقدار کا ضامن ہے۔

وکٹر اوربانتصویر: picture alliance / dpa

یورپی یونین اور امریکہ سمیت دیگر کئی بین الاقوامی ادارے وزیر اعظم وکٹر اوربان  کے پیش کردہ دستور کی کئی شقوں پر تنقید کر چکے ہیں۔ ہنگری کا نیا دستور یکم جنوری سے نافذالعمل ہو گیا ہے۔ اس کی منظوری کے وقت اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا۔ دستور کی منظوری گزشتہ سال اپریل میں ہوئی تھی۔ بوڈاپیسٹ حکومت کی انٹرنینشل مانیٹری فنڈ کے ساتھ گزشتہ سال ہونے والی بات چیت نئے دستور کی وجہ سے نامکمل رہی تھیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق رواں برس ہنگری اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے امکاناً کساد بازاری کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

رپورٹ:  عابد حسین

ادارت:  ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں