ہنگری کے معروف ترین ادیب گیورگی کونراڈ انتقال کر گئے
15 ستمبر 2019
نازی جرمن دور میں یہودی قتل عام یا ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والے اور ہنگری کے معروف ترین ادیبوں میں سے ایک گیورگی کونراڈ چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی تصانیف دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔
اشتہار
گیورگی کونراڈ 1933ء میں مشرقی ہنگری کے شہر دیبریسِن کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی پرورش رومانیہ کے ساتھ سرحد کے قریب ہی واقع دیبریسِن کے ایک نواحی شہر میں ہوئی تھی۔ جون 1944ء میں، جب جرمنی میں قوم پرست سوشلسٹوں کی حکومت تھی اور نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری تھا، گیورگی کونراڈ ایک گیارہ سالہ لڑکے کے طور پر نازی اذیتی کیمپوں میں پہنچنے سے محض اپنی ہمت کی وجہ سے بچ گئے تھے۔
'صرف گیارہ برس کی عمر میں بالغ‘
تب دیگر مشرقی یورپی ممالک کی طرح ہنگری اور ہنگری میں ان کے آبائی شہر سے بھی یہودیوں کے آؤش وِٹس اور دیگر نازی اذیتی کیمپوں میں ریل گاڑیوں کے ذریعے پہنچائے جانے کا عمل جاری تھا۔
انہیں بھی ایسی ہی ایک ٹرین میں سوار کرا دیا گیا تھا مگر ایک کم عمر طالب علم کے طور پر بھی وہ ڈرنے کے بجائے بوڈاپسٹ میں اس ریل گاڑی سے چھلانگ لگا کر فرار ہونے اور اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس ریل گاڑی میں سوار ان کے تقریباﹰ تمام ساتھی طالب علم آؤش وِٹس میں نازیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اس بارے میں بعد میں انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا تھا، ''میں صرف گیارہ برس کی عمر میں ہی بالغ ہو گیا تھا۔‘‘
سوویت یونین کے خلاف عوامی بغاوت میں شرکت
گیورگی کونراڈ نے ہنگری میں 1956ء میں (اب سابق) سوویت یونین کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت میں بھی حصہ لیا تھا۔ یہ عوامی بغاوت ناکام ہو گئی تھی مگر گیوری کونراڈ نے تب بھی اپنی بہن اور ہنگری کے ہزاروں دیگر شہریوں کے برعکس اپنے وطن میں ہی مقیم رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کا پہلا ناول 'ملاقاتی‘ (The Visitor) سن 1969ء میں شائع ہوا تھا اور اب تک اس کا 13 غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
کونراڈ ہنگری میں اشتراکی نظام حکومت کے دور میں حقیقی سوشلزم کے نام پر اس نظام کے عملی طور پر تکلیف دہ پہلو اور اس کے ذریعے چھپائے جانے والے سچ کی حمایت کرتے ہوئے ملکی اپوزیشن کے بہت قریب ہو گئے تھے اور ایک سیاسی منحرف کے طور پر جانے جانے لگے تھے۔
حکومتی پابندیاں
گیورگی کونراڈ نے اس دور میں اپنی کئی تحریریں زیر زمین رہتے ہوئے لکھیں اور پھر بوڈاپسٹ میں کمیونسٹ حکمرانوں نے ان کی طرف سے حکومت پر کی جانے والی تنقید کے جواب میں ان کے سفر اور کسی بھی شعبے میں پیشہ ور کارکن کے طور پر کام کرنے پر پابندی بھی لگا دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1973ء سے لے کر 1988ء تک ہنگری میں ان کی کوئی بھی تحریر شائع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ان کی کامیاب ترین تصانیف میں ناول بھی شامل ہیں اور وہ کہانیاں بھی جو کافی حد تک مضامین کے سے انداز میں لکھی گئی ہیں۔ ان کی بین الاقوامی سطح پر بہت مشہور ہو جانے والی تصانیف میں ‘ملاقاتی‘ کے علاوہ 'روحوں کا میلہ‘، 'میلِنڈا اور دراگومان‘ اور 'تیز ہوا میں درختوں کے پتے، پہلی کھدائی‘ شامل ہیں۔
پین انٹرنیشنل کے صدر بھی
1989ء میں ہنگری میں کمیونزم کے خاتمے میں بھی گیورگی کونراڈ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1990ء میں انہیں ادیبوں کی بین الاقوامی تنظیم پین انٹرنیشنل کا صدر بھی منتخب کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں خود ان کے اپنے وطن ہنگری کے علاوہ بیرونی دنیا میں بھی کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ 1997ء میں انہیں جرمن دارالحکومت برلن میں قائم مشہور و معروف اکیڈمی آف آرٹس کا صدر بھی بنا دیا گیا تھا اور وہ اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے غیر ملکی تھے۔
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
16 تصاویر1 | 16
'مطمئن ضمیر کا حامل بے چین مصنف‘
اس کے بعد کے برسوں میں بھی گیورگی کونراڈ سیاسی طور پر بہت فعال رہے تھے۔ آج کل کے ہنگری میں وہ موجودہ عوامیت پسند وزیر اعظم وکٹور اوربان پر اپنی شدید تنقید کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے۔ اب لیکن 'مطمئن ضمیر کا حامل بے چین مصنف‘ ابدی نیند سو گیا ہے۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے۔ ان کا انتقال ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ میں ان کے گھر پر ہوا۔
وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے گیورگی کونراڈ کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے اور انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا، ''گیورگی کونراڈ بیسویں صدی کی تاریخ کے اہم ترین شاہدین میں سے ایک تھے، جنہوں نے اپنی جدوجہد کے ساتھ جمہوری عمل کی حمایت کرتے ہوئے ہنگری میں جمہوریت کے لیے بھی انتھک کوشش کی اور یورپ کی سیاسی تقسیم کے پرامن خاتمے کے لیے بھی بےمثال قربانیاں دیں۔‘‘
م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
بوڈاپیسٹ: عالمی ورثے کے مقامات اور اُن کے نظارے
ہنگری کا دارالحکومت سیاحوں کو ہر وہ چیز پیش کرتا ہے، جس کے وہ طلب گار ہوتے ہیں۔ اس شہر کی شاندار تاریخی عمارتیں، گرم پانی کے غسل خانے اور پرلطف شبینہ نظارے شامل ہیں۔ ان میں یونیسکو کی عالمی میراث کی عمارت بھی شامل ہے۔
تصویر: THOMAS COEX/AFP/Getty Images
زنجیروں والا پُل (چین برِج)
بوڈاپیسٹ سے گزرنے والے دریائے ڈینیوب پر قائم نو پُلوں میں سے سب سے پرانا چین برج یا زنجیروں والا پُل ہے۔ یہ سن 1849 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی پُل سے گزرتے ہوئے ایک سیاح پیسٹ سے پہاڑی حصے بوڈا سے پہنچتے ہیں۔ سن 2017 میں بارہ ملین سیاح ہنگری کے دارالحکومت میں شبینہ نظاروں میں موجود تھے۔ سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/U. Dueren
کاسل یا قلعے والا ضلع
زنجیروں والے پل سے گزرتے ہوئے بوڈاپیسٹ کے قلعے والے ضلعے میں داخل ہوا جاتا ہے۔ اس علاقے میں ایک وسیع و عریض قلعہ اور پیلس کمپلیکس واقع ہے۔ اس کے علاوہ باروق ثقافت کے مکانات، عجائب گھر، گرجا گھر اور تنگ گلیاں سیاحوں کے من پسند مقامات ہیں۔ یہ کار فری علاقہ ہے اور یہاں صرف پیدل ہی گھوما پھرا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/D. Renckhoff
مچھیروں کی بستی اور شاہ اسٹیفن
مچھیروں کی بستی قلعے والے ضلعے میں واقع ہے۔ یہ انیسویں صدی میں قدیمی مارکیٹ والے علاقے میں دریائے ڈینیوب کے کنارے پر قائم کی گئی تھی۔ اب اس بستی والے علاقے سے شہر کا نظارہ کیا جاتا ہے۔ اسی مقام پر سن 1000عیسوی میں ہنگری کے بادشاہ اسٹیفن کا مجسمہ بھی نصب ہے، اسی بادشاہ کے دور میں ہنگری مشرف بہ مسیحیت ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Breuer
ماتھیاس چرچ
بوڈاپیسٹ شہر کی قدیمی مچھیروں کی بستی کے پہلو میں سات سو برس پرانا ماتھیاس چرچ قائم و دائم ہے۔ یہ سینٹ میتھیو کے نام سے منسوب نہیں بلکہ بادشاہ ماتھیاس کے نام سے جڑا ہے۔ اسی گرجا گھر میں کئی بادشاہوں کی تاجپوشی کی تقریبات منعقد کی گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/S. Kiefer
سیچینیی کا گرم نہانے والا تالاب
بوڈاپیسٹ میں پندرہ گرم پانی کے نہانے والے تالاب ہیں۔ سیچینیی کا طبی تالاب سب سے وسیع اور بڑا ہے۔ یہ سن 1913 میں کھولا گیا تھا۔ یہ ابھی تک اپنا شکوہ سنبھالے ہوئے ہے۔ اس کے اندر چھوٹے بڑے اٹھارہ تالاب ہیں اور ان میں گرم پانی قدرتی چشموں سے گرایا جاتا ہے۔ اس تالاب کے پانی کا درجہٴ حرارت اٹھائیس سے چالیس ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔
تصویر: DW/E. Kheny
کیفے نیویارک
یہ ایک ایسا مقام ہے، جہاں انیسویں اور بیسویں صدیوں کا ملن دکھائی دیتا ہے۔ یہ دلفریب کیفے سن 1894 میں ایک انشورنس کمپنی کی نگرانی میں کھولا گیا تھا۔ یہ کیفے مختلف ادوار کے تلخ حالات برداشت کرنے میں کامیاب رہا۔
تصویر: picture-alliance/Z. Okolicsanyi
مرکزی مارکیٹ ہال
بوڈاپیسٹ میں خریداری کے کئی مراکز ہیں اور ان میں مرکزی مارکیٹ ہال کی انفرادیت جداگانہ ہے۔ اس مارکیٹ میں سیاح اور مقامی باشندے ایک دوسرے کے ساتھ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ اس مارکیٹ ہال میں سبزی، گوشت اور مچھلی سمیت ہر چیز دستیاب ہے۔ یاد رہے جب بھی اس مارکیٹ میں جائیں تو دام میں کمی ضرور کروائیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/S. Kiefer
عظیم یہودی عبادت خانہ
براعظم یورپ کا سب سے بڑا سائناگوگ یا یہودی عبادت خانہ (کنیسہ) سن 1854 سے 1859 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ عبادت خانہ دوسری عالمی جنگ میں بھی پوری طرح تباہ ہونے سے بچ گیا تھا۔ اس میں ایک وقت میں تین ہزار یہودی عبادت کے لیے جمع ہو سکتے ہیں۔ عبادت کے دوران سیاحوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت حاصل ہوتی ہے۔
ٹری آف لائف یا شجر حیات بوڈاپیسٹ کے یہودی عبادت خانے کے اندرونی دالان میں واقع ہے۔ یہ ہولوکاسٹ کے لاکھوں ہلاک ہونے والے یہودیوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک تعمیر شدہ درخت پر لگے نقرئی پتوں سے بہنے والے پانی کو بہتے آنسوؤں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ان پتوں پر اُن افراد کے نام کندہ ہیں جنہوں نے یہودیوں کی زندگیاں بچانے کی کوششیں کی تھیں۔
تصویر: DW/M. Ostwald
یہودی علاقے کے تباہ شدہ شراب خانے
بوڈاپیسٹ شہر کے ہپیوں والے علاقے کے قرب میں ایک نیا یہودی کوارٹر قائم کر دیا گیا ہے۔ ہپیوں والے علاقے میں درجنوں شراب خانے اور مشروبات نوشی کے مراکز ہیں اور یہ علاقہ اجڑے ہوئے یہودی حصے کی باقیات سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔
تصویر: DW/M. Ostwald
Parliament Building
پارلیمان کی عمارت
ہنگری کی پارلیمنٹ وسیع اور پرشکوہ عمارت میں قائم ہے۔ اس عمارت میں سات سو کمرے ہیں۔ عمارت چھیانوے میٹر بلند ہے۔ اس عمارت کے ارد گرد وہ عمارتیں ہیں جنہیں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافت کا حصہ قرار دے رکھا ہے۔