ہنگری کے مغربی علاقوں میں زہریلے کیچڑ سے تباہی
6 اکتوبر 2010یہ کیمیائی فضلہ المونیا کے ایک پلانٹ سے حادثاتی طور پر بہہ نکلا، جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ یہ واقعہ دارالحکومت بوڈاپیسٹ سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا، جہاں کولونٹار نامی گاؤں سب سے زیادہ متاثرہ ہوا۔
اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث کم از کم چار افراد ہلاک اور 120زخمی ہوئے ہیں جبکہ چھ لاپتہ ہیں۔ ہلاکتوں کی حتمی وجہ کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔
حکام نے اس حادثے کی وجوہات کا پتہ چلانے اور نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے تفتیش شروع کر دی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ زمین آلودہ ہو چکی ہے اور صورت حال کے معمول پر آنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اس تباہی کے نتیجے میں سات ہزار افراد براہ راست متاثرہ ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ تقریباﹰ چار سو رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں 110 افراد کو بچا لیا گیا ہے۔ امدادی کارروائیوں کے لئے چھ ایمرجنسی ٹیموں سمیت 500 پولیس اہلکار اور فوجی تعینات کئے گئے ہیں۔
اس زہریلے کیچڑ کے نتیجے میں کم از کم سات دیہات متاثر ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں مکینوں کو اپنے گھر خالی کرنا پڑے ہیں۔ مختلف نیوز چینلز نے اپنی ویڈیو فوٹیج میں دکھایا ہے کہ سڑکوں پر کھڑی گاڑیاں کیچڑ کے ساتھ بہہ گئیں جبکہ پلوں اور گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
ہنگری میں قدرتی آفات سے نمٹنے سے متعلق ادارے کے مطابق یہ کیچڑ پانی اور مائننگ کے فضلے کا مرکب ہے، جس میں دھاتیں بھی شامل ہیں۔ اسے انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔
متاثرہ علاقوں کے لوگ اس حادثے پر انتہائی غم و غصہ ظاہر کر رہے ہیں۔ متعدد کے گھر تباہ ہو گئے ہیں جبکہ انہیں مستقبل کے بارے میں بے یقینی لاحق ہے۔ ایک متاثرہ شخص نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ذمہ دار کون ہے، کون ہے ذمہ دار؟‘
اس شخص نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ حادثے کے وقت وہ گھر پر نہیں تھا۔ وہ اپنی اہلیہ کو ہسپتال لے کر گیا ہوا تھا، جس کی وجہ سے وہ بچ گئے تاہم وہ واپس پہنچے تو گھر تباہ ہو چکا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ