ہوائی اڈوں کا انتظام، طالبان کی امارات کے ساتھ ڈيل
24 مئی 2022
کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے بعد طالبان نے تصديق کر دی ہے کہ عنقريب متحدہ عرب امارات کے ساتھ ايک ڈيل کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، جس کے تحت افغانستان کے ہوائی اڈوں کے انتظامات امارات کے سپرد کر ديے جائيں گے۔
اشتہار
افغان طالبان عنقريب متحدہ عرب امارات کے ساتھ ايک معاہدے کو حتمی شکل ديں گے، جس کے تحت افغانستان ميں ہوائی اڈوں کا انتظام امارات کو سونپ ديا جائے گا۔ طالبان کے نائب وزير اعظم ملا عبدالغنی برادر نے ايک ٹويٹ ميں اس سمجھوتے کی تصديق کی اور بعد ازاں منگل کو کابل ميں رپورٹرز کو بھی بتايا کہ امارات کے ساتھ ايک معاہدہ از سر نو تشکيل ديا جا رہا ہے۔
يہ پيشرفت طالبان کے امارات، ترکی اور قطر کے ساتھ کئی ماہ تک مذاکرات کے بعد سامنے آئی ہے۔ فوری طور پر يہ واضح نہيں کہ معاہدے ميں کيا کيا شامل ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کی جانب سے اس معاہدے کی تصديق فی الحال نہيں ہو پائی ہے۔ اس مذاکراتی عمل سے واقف ايک ذريعے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتايا کہ بات چيت کے دوران ايک اہم معاملہ قطر کا يہ مطالبہ تھا کہ اس کے سکيورٹی دستے ہوائی اڈے پر موجود ہوں۔
افغانستان ميں طالبان کی عمل داری کے بعد قطر اور ترکی کی ٹيکنيکل ٹيميں ہوائی اڈے کے آپريشنز اور سکيورٹی امور کا معائنہ کرنے کے ليے افغانستان کا دورہ بھی کر چکی ہيں۔ يہ اسی وقت کی پيش رفت ہے جب بين الاقوامی افواج افغانستان چھوڑ رہی تھيں۔
ہوائی اڈے کے امور سنبھالنے کے ليے مذاکراتی عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح مختلف بين الاقوامی قوتيں افغانستان ميں اثر ر رسوخ قائم کرنے کی دوڑ ميں لگی ہوئی ہيں۔ گو کہ طالبان کئی متنازعہ اقدامات و اعلانات کی بنياد پر شديد تنقيد کی زد ميں ہے اور اسے بين الاقوامی اداروں کی جانب سے مدد کی اميد کم ہی ہے۔ اب تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا ہے۔ خواتين کے حقوق پر قدغنوں اور سلامتی کی صورتحال کے پيش نظر مستقبل قريب ميں بھی اس کی اميد کم ہی ہے۔
افغانستان میں بے سہارا معاشرتی زوال
طالبان نے جب سے افغانستان میں حکومت سنبھالی ہے تب سے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ملک کی صورت حال ابتر ہے۔ نصف آبادی فاقوں پر مجبور ہے اور حکومت خواتین کے حقوق کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔
تصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP
بہت کم خوراک
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ لوگ بھوک اور خوراک کی دستیابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو اب چین سے بھی امدادی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ترجمان کے مطابق افغانستان میں بھوک کی جو سنگین صورت حال ہے، اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان نے بھوک سے مارے افراد کی تعداد بیس ملین کے قریب بتائی ہے۔
تصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/IMAGO
خشک سالی اور اقتصادی بحران
سارے افغانستان میں لوگوں شدید خشک سالی اور معاشی بدحالی کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ماہر ایتھنا ویب کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام بائیس ملین افغان افراد کی مدد کر چکا ہے۔ مزید امداد جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کو ایک ارب تیس کروڑ درکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا امداد جاری رکھنا اس پر منحصر ہے۔
تصویر: Javed Tanveer/AFP
انتظامی نگرانی سخت سے سخت تر
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج ان کے اس دعوے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سخت تر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہیں سیکنڈری اسکولوں تک کی رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ تنہا اور بغیر مکمل برقعے کے کوئی عورت گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں۔ تصویر میں کابل میں قائم چیک پوسٹ ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
نئے ضوابط کے خلاف احتجاج
افغانستان کے قدرے لبرل علاقوں میں نئے ضوابط کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک احتجاج بینر پر درج ہے، ’’انہیں زندہ مخلوق کے طور پر دیکھا جائے، وہ بھی انسان ہیں، غلام اور قیدی نہیں۔‘‘ ایک احتجاجی بینر پر درج ہے کہ برقعہ میرا حجاب نہیں۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ایک برقعہ، قیمت پندرہ ڈالر
کابل میں ایک برقعہ فروش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے نئے ضوابط کے اعلان کے بعد برقعے کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ضرور لیکن اب قیمتیں واپس آتی جا رہی ہیں لیکن ان کی فروخت کم ہے۔ اس دوکاندار کے مطابق طالبان کے مطابق برقعہ عورت کے لیے بہتر ہے لیکن یہ کسی عورت کا آخری انتخاب ہوتا ہے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ریسٹورانٹ میں اکھٹے آمد پر پابندی
مغربی افغانستان میں طالبان کے معیار کے تناظر میں قندھار کو لبرل خیال کیا جاتا ہے، وہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کسی ریسٹورانٹ میں اکھٹے جانے کی اجازت نہیں رکھتے۔ ایک ریسٹورانٹ کے مینیجر سیف اللہ نے اس نئے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے پابند ہیں حالانکہ اس کا ان کے کاروبار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کے مطابق اگر پابندی برقرار رہی تو ملازمین کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔
تصویر: Mohsen Karimi/AFP
بین الاقوامی برادری کا ردِ عمل
طالبان کے نئے ضوابط کے حوالے سے عالمی سماجی حلقوں نے بااثر بین الاقوامی کمیونٹی سے سخت ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے ان ضوابط کے نفاذ کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کو ختم کرنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔