ہوانا میں رولنگ اسٹونز کا ’اوباما سے زیادہ پرجوش استقبال‘
26 مارچ 2016کیوبا میں رولنگ اسٹونز کو’لوس رولنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہوانا میں اس بینڈ کو سننے اور دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں شائقین موجود تھے۔ ان میں کیوبا کے شہریوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی۔ مک ییگر، کیتھ رچرڈز، رونی وڈ اور چارلی واٹس نے اس دوران اپنے اٹھارہ معروف گیت پیش کیے۔ اس دوران ایک تین منزلہ ٹیلی وژن اسکرین بھی نصب تھی اور دور دور تک اسپیکرز بھی لگائے گئے تھے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ کیوبا کے ساتھ ہی اس ہفتے کا آغاز ہوا تھا اور اختتام رولنگ اسٹونز کے کنسرٹ پر ہوا ہے۔
مک ییگر نے اسٹیج پر آنے کے بعد زور سے چلاتے ہوئے کہا، ’’ہوانا، کیوبا اینڈ رولنگ اسٹونز، یہ سب کچھ حیران کن ہے۔ یہاں آ کر اور آپ لوگوں سے مل کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘ اس کنسرٹ کی خاص بات یہ تھی کہ کیوبا میں 1959ء میں آنے والے انقلاب کے بعد یہ اس ملک میں موسیقی کے اتنے معروف کسی بینڈ کی اپنی نوعیت کی پہلی پرفارمنس تھی۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد کیوبا امریکا اور اس کے اتحادی ممالک سے ایک طرح سے کٹ سا گیا تھا۔ اس دوران کسی بھی معروف بینڈ کو کیوبا میں کنسرٹ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور لوگ کیسیٹس اور سی ڈیز کے ذریعے ہی اپنے من پسند گلوکاروں کے گیت سنتے تھے۔
رولنگ اسٹونز کے کنسرٹ کے بارے اس ملک کے عام شہریوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔ ایک شائق کے بقول اسے اس کنسرٹ سے توانائی ملنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کا احساس بھی ہوا ہے۔ اس موقع پر ایک باسٹھ سالہ چوکی دار نے کہا، ’’اب میں مر سکتا ہوں کیوں کہ رولنگ اسٹونز کو دیکھنا میری آخری خواہش تھی‘‘۔
’رولنگ اسٹونز‘ کا شمار راک موسیقی کے معروف ترین بینڈز میں ہوتا ہے۔ ہوانا لاطینی امریکی ممالک کے ان کے دورے کی آخری منزل تھا۔ اپنے ’اولے‘ لاطینی امریکی ٹور کے دوران یہ بینڈ برازیل، یوروگوئے، چلی، ارجنٹائن اور میکسیکو سے ہوتا ہوا کیوبا پہنچا تھا۔
2014ء سے کیوبا اور امریکا کے باہمی روابط بہ حال ہونا شروع ہوئے تھے۔ گزشتہ برس ان دونوں ممالک نے ہوانا اور واشنگٹن میں اپنے اپنے سفارت خانے بھی کھول لیے اور دیگر معاملات بھی بہ حال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد سے امریکا کے دیگر اتحادی ممالک نے بھی کیوبا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید استوار کرنا شروع کر دیا ہے۔