امریکی محکمہ تجارت نے چینی کمپنی ہواوے پر عائد کردہ پابندیوں میں نوے دن کی نرمی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کمپنی کو اب یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ امریکی ساختہ مال خرید سکتی ہے۔
اشتہار
امریکی وزیر تجارت ولبر راس نے ہواوے پر عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس اجازت سے چینی کمپنی امریکی فرموں کے ساتھ کاروباری سودوں کو اگلے نوے دنوں تک جاری رکھ سکے گی۔ اسی طرح وہ امریکی کمپنیاں بھی ہواوے سے ایسے آلات خریدنے کی مجاز ہوں گی جو وہ اپنے استعمال میں لائے ہوئے ہیں۔ ولبر راس کے مطابق عبوری اجازت کے بعد ہواوے موبائل فونز استعمال کرنے والوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہو گا اور رورل براڈبینڈ نیٹ ورک میں بھی تسلسل رہے گا۔
ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ چینی ٹیلی کوم کمپنی ہواوے اور انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل نے واشنگٹن حکومت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے تناظر میں اپنے باہمی معاملات حل کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ انیس مئی کو گوگل اور اینڈرائڈ نے چینی ٹیلی کوم کمپنی ہواوے کے ساتھ اپنے رابطے ختم کرنے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ موبائل ٹیلی فونز میں استعمال ہونے والا ایک آپریٹنگ سسٹم اینڈرائڈ گوگل ہی کی ملکیت ہے۔
گوگل اور اینڈرائڈ نے ہواوے کے ساتھ رابطے ختم کرنے کا فیصلہ واشنگٹن حکومت کی جانب سے چینی کمپنی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیے جانے کے بعد کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ مختلف چینی کمپنیوں کے ساتھ ٹیکنالوجی شیئرنگ کو بھی ممنوع قرار دے چکی ہے۔ ان کمپنیوں سے کاروباری روابط اب واشنگٹن کی اجازت سے ہی قائم کیے جا سکیں گے۔ عائد پابندیوں میں نرمی کے بعد اگلے نوے ایام کے لیے کسی خصوصی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔
دوسری جانب ہواوے کے بانی رین ژینگ فائی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ گوگل اور اُن کا ادارہ امریکی پابندیوں کے بعد کی صورت حال سے عملی طور پر نمٹنے کی کوشش میں ہے۔ ہواوے کے بانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی سیاستدانوں کی موجودہ روش ظاہر کرتی ہے کہ وہ اُن کی کمپنی کی طاقت کا اندازہ صحیح طور پر لگانے سے قاصر رہے ہیں۔
چینی ٹیلی کوم کمپنی نے ایسے اشارے بھی دیے ہیں کہ وہ اپنا آپریٹنگ سسٹم جلد ہی متعارف کروا سکتی ہے۔ اس سسٹم کو تیار کرنے پر ہواوے سن 2012 سے توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔