جرمنی میں ہورسٹ زیہوفر وہ کام کر سکتے ہیں، جو کئی دوسرے نہ کر سکے۔ وہ میرکل حکومت کے خاتمے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ زیہوفر یوں تو جرمن چانسلر کے قریب ترین سیاسی حلقوں میں شامل ہیں لیکن وہ میرکل کے سب سے بڑے ناقد بھی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
اشتہار
جرمنی کو اس وقت مہاجرین کے بحران کی وجہ سے جس صورت حال کا سامنا ہے، اسے کئی ماہرین برلن حکومت کو درپیش اقتدار کے ایک بڑے بحران کا نام دے رہے ہیں۔ اس بحرانی صورت حال کے دو فریق ہیں، ایک موجودہ مخلوط حکومت میں شامل قدامت پسندوں کی بڑی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی رہنما اور وفاقی چانسلر انگیلا میرکل اور دوسرے جنوبی صوبے باویریا میں سی ڈی یو کی ہم خیال چھوٹی قدامت جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے رہنما ہورسٹ زیہوفر، جو وفاقی وزیر داخلہ ہیں۔
دونوں ہی برلن میں مخلوط ملکی حکومت میں بڑے عہدیدار ہیں، لیکن زیہوفر حالیہ کچھ دنوں سے ایسی سیاست کر رہے ہیں کہ کئی سیاسی تجزیہ کار انہیں ’میرکل کے قریب ترین سیاسی حلقے میں شامل میرکل کے سب سے بڑے ناقد‘ کا نام دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
کئی ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہورسٹ زیہوفر وہ کام کر دکھائیں، جسے کرنے کا سوچا تو بہت سے سیاستدانوں نے تھا لیکن کر کوئی بھی نہ سکا، یعنی میرکل کو اقتدار سے باہر کر دینا۔ اب یہی کام شاید زیہوفر کر دکھائیں گے۔
ایسا پہلی بار قریب ڈھائی سال قبل ہوا تھا کہ ملک میں پناہ کے متلاشی لاکھوں غیر ملکی تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں میرکل اور زیہوفر کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔ تب زیہوفر نے باویریا کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انگیلا میرکل پر کھل کر تنقید کی تھی اور سیاسی طور پر میرکل کی حالت تقریباﹰ ایسی تھی، جیسے کسی اسکول کی طالبہ کو سرزنش کرتے ہوئے اس کے تعلیمی ادارے کا کوئی ضابطہ سمجھایا گیا ہو۔
نومبر دو ہزار پندرہ میں سی ایس یو کے پارٹی کنوینشن کے موقع پر لی گئی ایک تصویر: چانسلر میرکل اور ہورسٹ زیہوفرتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Hoppe
تب نومبر 2015ء میں سی ایس یو کے ایک پارٹی کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے ہورسٹ زیہوفر نے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد کے حوالے سے حکومت کو ’زیادہ سے زیادہ کی بھی کوئی حد‘ مقرر کرنا چاہیے۔ اس کنوینشن میں ایک ہم خیال مہمان سیاستدان کے طور پر انگیلا میرکل بھی شریک تھیں، اور انہوں نے دیرپا بنیادوں پر اور ٹھوس شکل میں ایسا کوئی بھی حکومتی فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
’باویریا کا شیر‘
ہورسٹ زیہوفر نومبر 2015ء میں میرکل سے اپنی بات تسلیم نہیں کروا سکے تھے لیکن ان کا رویہ مصالحت پسندانہ کے بجائے جارحانہ زیادہ تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ قریب تین عشروں سے وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ زیہوفر چانسلر ہیلموٹ کوہل کی حکومت میں وزیر صحت رہے تھے، میرکل کی قیادت میں پہلی جرمن حکومت میں وزیر زراعت اور پھر اس کے بعد 2008ء میں وہ باویریا کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔
جرمنی میں اتنے زیادہ تجربہ کار سیاستدان کم ہی ہیں، جنہوں نے اتنے زیادہ مختلف اور متنوع عہدوں پر کام کیا ہو۔ اسی لیے اس وقت 69 سالہ زیہوفر تو یہ جانتے ہی نہیں کہ اپنی ذات پر شک و شبہ کرنا کس کو کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے ہاں خود اعتمادی کا کوئی فقدان نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ زیہوفر کا تعلق جرمنی کے اس جنوبی صوبے سے ہے، جس کا نام ہی ’فری اسٹیٹ آف باویریا‘ ہے۔ ریاست باویریا اپنی مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے وفاقی جرمن صوبوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ وہاں کے اسکول بہترین ہیں، گاڑیاں جدید ترین اور انتہائی تیز رفتار، ملک کی بہترین بیئر بھی باویریا سے ہے اور پھر باویریا کے ریاستی نشان میں ’شیر‘ کا موجود ہونا۔ انہی سب باتوں کی وجہ سے زیہوفر بھی خود کو ایک ’باویریئن شیر‘ ہی سمجھتے ہیں۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
’ہم خیال جماعتیں‘
باویریا کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے کئی سالہ دور اقتدار میں زیہوفر نے کئی بار سیاسی حوالے سے مختلف امور پر اپنا پالیسی تبدیل کی، لیکن ان کی ساکھ خراب نہ ہوئی۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ باویریا مجموعی طور پر جرمنی کا ایک انتہائی قدامت پسند صوبہ ہے لیکن وہاں اس بات سے بھی کسی کو کوئی زیادہ فرق نہ پڑا، جب یہ پتہ چلا کہ ہورسٹ زیہوفر ایک ایسے بچے کے باپ بھی ہیں، جس کی والدہ ان کی بیوی نہیں ہیں۔
میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور زیہوفر کی پارٹی سی ایس یو کے درمیان وفاقی جرمن پارلیمان میں ایک مشترکہ پارلیمانی حزب قائم کرنے کی روایت 1949ء سے چلی آ رہی ہے۔ انتخابات کے زمانے میں یہ روایت بھی اتنی ہی پرانی ہے کہ سی ڈی یو پورے ملک میں اپنے انتخابی امیدوار کھڑے کرتی ہے سوائے باویریا کے، جبکہ سی ایس یو صوبائی اور وفاقی پارلیمانی انتخابات میں صرف باویریا میں ہی اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہے۔ یوں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی سیاسی حلیف بھی ہیں اور اردو میں ایک دوسرے کی ’ہم خیال جماعتیں‘ اور انگریزی میں ایک دوسرے کی ’سِسٹر پارٹیز‘ کہلاتی ہیں۔
اب ان ’بہنوں‘ کے مابین کھچاؤ اور اختلاف رائے اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ ’بڑی بہن‘ سے ’چھوٹی بہن‘ ناراض ہے اور ’چھوٹی بڑی کے کہنے ہی میں نہیں آ رہی‘۔ اسی پس منظر میں زیہوفر نے بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان میں ملکی وزیر داخلہ کے طور پر حال ہی میں یہاں تک کہہ دیا، ’’میرے پاس ایسا کوئی سماجی رومانوی فہم نہیں ہے کہ جو تارکین وطن جرمنی میں جرائم کے مرتکب ہوئے ہوں اور جرمنی میں امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بنے ہوں، انہیں اس ملک میں رہنے کی اجازت ہونا چاہیے۔ نہیں، ایسے تارکین وطن اور مہاجرین کا ملک بدر کیا جانا لازمی ہونا چاہیے۔‘‘
اسی لیے کئی ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر پہلے اگر چانسلر میرکل سے اختلاف کرتے تھے، تو آج وہ میرکل حکومت کے لیے اس کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک خطرہ بن چکے ہیں، حالانکہ میرکل بھی اب تک اپنے موقف میں کسی بڑی لچک پر تیار نہیں ہیں۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔