چند عشروں بعد دنیا میں بار بار سپر طوفان، تباہی سو گنا زیادہ
29 اگست 2019
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق بین الحکومتی پینل نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بہت سے پریشان کن انکشافات کیے ہیں۔ ان میں عالمی سمندروں کی سطح میں ایک میٹر تک اضافہ اور بار بار آنے والے سپر طوفان بھی شامل ہیں۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے جمعرات انتیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اےا یف پی کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق بین الحکومتی پینل (IPCC) نے اپنی ایک ایسی اسپیشل رپورٹ کا مسودہ تیار کر لیا ہے، جو باقاعدہ طور پر اگلے ماہ کی 25 تاریخ کو موناکو میں پیش کی جائے گی۔
اس رپورٹ کے مسودے میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگلی چند صدیوں میں کرہ ارض پر انسانوں کو خود کو کئی طرح کے بہت شدید اور تباہ کن حالات کے لیے تیار رکھنا ہو گا۔ اس دوران عالمی سمندر، زمین کے برف پوش خطے اور چھوٹی چھوٹی جزیرہ ریاستیں بہت بڑی بڑی تبدیلیوں سے گزریں گے۔
'پھر کوئی ازالہ ناممکن ہو گا‘
آئی پی سی سی کی اس اسپیشل رپورٹ کے مطابق، ''زمین پر انسانوں کی اس سیارے کو مسلسل گرم کرتی جا رہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسلسل اخراج کی عادت کئی طرح کے تباہ کن نتائج کا سبب بن رہی ہے۔ ان میں عالمی سمندروں کی سطح میں وہ اضافہ بھی شامل ہے، جس کا پھر کبھی کوئی تدارک نہیں کیا جا سکے گا۔‘‘
اس کے علاوہ اس خصوصی رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ حالانکہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ بھی صرف دو ڈگری سینٹی گریڈ تک روکے رکھنے کا تخمینہ بھی بہت ہی مثبت پسندی کی علامت ہے، تاہم یہ تبدیلی بھی ماحولیاتی تباہی کے باعث اب تک کے نقصانات کے مقابلے میں آئندہ عشروں میں 100 گنا زیادہ نقصانات کا باعث بنے گی۔
28 کروڑ انسان بے گھر
اس کی ایک مثال یہ کہ آنے والے عشروں میں عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ ایک میٹر تک ہو سکتا ہے، جو 280 ملین انسانوں کے بے گھر ہو جانے کا سبب بنے گا اور دنیا کی بہت سی چھوٹی چھوٹی جزیرہ ریاستیں شدید تر نقصانات کا سامنا کریں گی کیونکہ تب یہ جزیرے مکمل یا جزوی طور پر سمندر میں ڈوب جائیں گے۔
جہاں تک زمین کے قطبی حصوں میں برف کی بہت موٹی تہہ کے بڑی تیز رفتاری سے پگھلتے جانے کا تعلق ہے، تو کرہ ارض کا یہ حصہ، جو 'کرائیوسفیئر‘ کہلاتا ہے، انسانوں کی پیدا کردہ عالمی حدت کا بری طرح نشانہ بنے گا۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ زمین کے برف پوش خطوں میں آج بھی سالانہ 400 بلین ٹن سے زیادہ برف پگھل کر ختم ہو رہی ہے۔
ہر سال بار بار سپر طوفان
ان حالات میں مستقبل میں بڑے بڑے پہاڑی گلیشیئر بھی ختم ہو جائیں گے اور یوں انسانیت پینے کے صاف پانی کے سب سے بڑے قدرتی ذرائع سے محروم بھی ہو سکتی ہے۔ تازہ اور میٹھے پانی کی یہ قلت عالمی سطح پر کشیدگی اور تنازعات کو بھی جنم دے گی۔
اقوام متحدہ کے اس ماحولیاتی پینل نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ سن 2100 تک دنیا میں ہر سال اتنی زیادہ تعداد میں اور انتہائی تباہ کن سپر طوفان اور سیلاب آنے لگیں گے کہ ان کی وجہ سے ہونے والی تباہی آج تک کی سالانہ اوسط کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔
م م / ک م / اے ایف پی
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مہاجرت
قحط، سمندروں کی سطح میں اضافے اور کاشتکاری میں ناکامی کے نتیجے میں آئندہ تین دہائیوں کے دوران مہاجرت کرنے والے افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Imago/R. Unkel
حکومتوں کے لیے انتباہ
ورلڈ بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اگر حکومتوں نے فوری نوٹس نہ لیا تو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط اور شدید موسموں کی وجہ سے کئی خطوں میں تباہی پھیل سکتی ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور بہتر زندگی کی خاطر مہاجرت پر مجبور ہو جائے گی۔
تصویر: qudsonline
مہاجرت میں ڈرامائی اضافہ
ورلڈ بینک کے مطابق عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آئندہ تین دہائیاں انتہائی اہم ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت اور متاثرہ خطوں کے لوگوں کے لیے خصوصی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ایسے خطوں میں خوراک اور پانی کی قلت بھی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/M. Reino
زندگی کو خطرات
ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار پچاس تک ماحولیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں ہونے والی مہاجرت سے 143 ملین افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایسے چالیس ملین افراد کا تعلق زیریں صحارا، چالیس ملین کا جنوبی ایشیا جبکہ سترہ ملین کا تعلق لاطینی امریکی ممالک سے بتایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/L. Xiaopeng
اچھے ماحول کی تلاش
دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی نصف آبادی یعنی 2.8 فیصد زیریں صحارا، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک میں ہی سکونت پذیر ہے۔ یہ خطے ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ کوئی ایسی رپورٹ مرتب کی گئی ہے، جس میں ماحولیاتی تبدیلوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت کے معاملے کو جامع اور مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
تصویر: Mehr
ماحولیاتی تبدیلیاں مہاجرت کی ’اہم وجہ‘
عالمی بینک کی سی ای او کرسٹالینا جیوگیوا کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں لوگوں کو بے گھر کرنے کی ایک بڑٰی وجہ بن چکی ہیں۔ روزگار کے مواقع ختم ہونے کے علاوہ خوراک، پانی اور دیگر اشیائے ضروریات کی قلت کہ وجہ سے کنبے کے کنبے ایسے خطوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں، جہاں ان کی زندگی کو سکون میسر آ سکتا ہے۔
تصویر: nedayehirmand
بہتری کی توقع ہے
ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں زیادہ اقتصادی مسائل کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم عالمی عالمی بینک کے مطابق اگر ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور پائیدار دور اندیش ترقیاتی مںصوبہ بندی کی خاطر عالمی سطح پر ایکشن لیا جائے تو لاکھوں افراد کو ایسے خطرات سے بچایا جا سکتا ہے۔
تصویر: MEHR
ایتھوپیا سب سے زیادہ متاثر
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں افریقی ملک ایتھوپیا بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن دو پزار پچاس تک اس ملک کی آبادی تقریبا دوگنا ہو جائے گی۔ قحط کے باعث کاشت کاری کے خاتمے کی وجہ سے زیریں صحارا کے اس ملک سے بڑے پیمانے پر مہاجرت کے خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: AP
بنگلہ دیش کے مسائل
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں لوگوں کے داخلی سطح پر بے گھر کی سب سے بڑی واحد وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث جہاں گلیشئرز پگھل رہے ہیں، وہیں سمندروں کی سطح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو اس طرح کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: bdnews24.com/A. Pramanik
انسانی المیے کا خطرہ
عالمی بینک کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت ’ایک انسانی المیے‘ میں بدل سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کا یقین ہے کہ اگر عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کی جائے تو صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔ یہ گیسیں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب بھی قرار دی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/G.Tomasevic
دیہاتوں سے شہر نقل مکانی
ماہرین کے مطابق دیہاتوں میں کاشتکاری اور لائیو اسٹاک کے متاثر ہونے کے سبب لوگ شہروں کی طرف مہاجرت اختیار کر رہے ہیں اور یوں انہیں بیشتر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر منصوبہ بندی کی جائے تو مقامی لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے اور ان کی رہنمائی سے ان کی مشکلات دور کی جا سکتی ہیں۔