’ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والے مہاجرین کو کیوں قبول کیا؟‘
عاطف توقیر
13 نومبر 2017
بین الاقوامی سطح پر معروف جرمن فیشن ڈیزائنر کارل لاگرفیلڈ نے چانسلر انگیلا میرکل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ایسے افراد کو بھی ملک میں پناہ دی، جو ہولوکاسٹ یا یہودیوں کے قتل عام کو ’اچھا عمل‘ سمجھتے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس میں ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت میں فیشن ڈیزائنر کارل لاگرفیلڈ نے کہا، ’’دہائیاں بھی بیت جائیں تب بھی، کوئی شخص لاکھوں یہودیوں کو قتل نہیں کر سکتا اور آپ ان یہودیوں کے بدترین دشمنوں کو اپنے ہاں لے آئے ہیں۔‘‘
ایک فرانسیسی ٹی وی چینل سے نشر ہونے والے اپنے اس انٹرویو میں لاگرفیلڈ نے مزید کہا، ’’میں جرمنی میں ایک ایسے شخص سے واقف ہوں، جس نے ایک شامی نوجوان کو اپنے ہاں جگہ دی اور چار روز بعد اسی نوجوان نے کہا کہ ہولوکاسٹ جرمنی کی سب سے بہترین ایجاد ہے۔‘‘
لاگرفیلڈ کے اس بیان کے بعد سینکڑوں افراد نے فرانسیسی میڈیا ریگولیٹر کو لاگرفیلڈ کے خلاف اپنی شکایات درج کرائی ہیں۔ ہفتہ گیارہ نومبر کے روز کارل لاگرفیلڈ نے یہ باتیں فرانسیسی ٹی وی چینل C8 کے ایک پروگرام ’ہیلو، ارتھلِنگز‘ میں کہیں۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
کارل لاگرفیلڈ اسی دور میں شہر ہیمبرگ میں پیدا ہوئے تھے، جب جرمنی میں نازی آمر اڈولف ہٹلر برسراقتدار آیا تھا۔ لاگرفیلڈ اس سے قبل بھی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو ایک ملین مہاجرین کو ملک میں پناہ دینے پر شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
تب لاگرفیلڈ کا کہنا تھا، ’’میرکل کے پاس پہلے کئی ملین تارکین وطن ہیں، جو معاشرے میں اچھی طرح سے ضم ہیں اور اچھے انداز سے کام کر رہے ہیں۔ انہیں ضرورت نہیں تھی کہ وہ مزید ایک ملین کو اپنے ہاں لے آئیں اور یونانی بحران کے بعد کسی منہ بولی ماں والا کردار ادا کر کے اپنا تشخص بہتر بنانے کی کوشش کریں۔‘‘
بنیادی جرمن قانون، مختصر تعارف: آزادی رائے
00:57
فیشن ڈیزائنر لاگرفیلڈ متعدد امور پر اپنے ایسے ہی متنازعہ بیانات کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اسی بیان میں کہا تھا، ’’فرانس کو دیکھیے، جو انسانی حقوق کی سرزمین ہے، اور اس نے کتنے مہاجرین کو قبول کیا ہے؟ دس ہزار یا بیس ہزار؟‘‘
فرانسیسی ٹی وی ریگولیٹر اتھارٹی سی ایس اے کے مطابق اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد اسے کئی سو افراد کی جانب سے شکایات موصول ہوئی ہیں اور یہ محکمہ اس حوالے سے اپنے طور پر تحقیقات کر رہا ہے۔
اس متنازعہ بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے لاگرفیلڈ پر شدید تنقید کی تاہم کئی صارفین نے لاگرفیلڈ کا دفاع بھی کیا۔