’نازیوں کی نانی‘ کہلانے والی ارزلا ہاور بیک کو ہولوکاسٹ کے انکار پر دو برس قید کا سامنا تھا، انہیں اپنی سزا کے آغاز کے لیے جیل پہنچنا تھا، مگر وہ نہ آئیں، اس کے بعد پولیس نے اس مجرمہ کی تلاش شروع کر دی ہے۔
اشتہار
جرمن صوبے لوئر سیکسینی کے حکام نے پیر کے روز ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والی ارزلا ہاور بیک کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں۔ 89 سالہ ہاوربیک کو گزشتہ ہفتے اپنی سزائے قید کے آغاز کے لیے جیل پہنچنا تھا، تاہم وہ وہاں نہیں پہنچیں۔
دنیا میں غیر معمولی نظام الاوقات
شمالی کوریا نے اپنا معیاری وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل کرتے ہوئے گھڑیوں پر سابقہ ٹائم بحال کر دیا ہے۔ اب دونوں کوریائی ملکوں کا معیاری وقت ایک ہے۔ تاہم ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔
سن 1949 میں چین میں اقتدار سنبھالنے والی کمیونسٹ پارٹی نے سارے ملک میں پائے جانے والے مختلف ٹائم زونز کو ختم کرتے ہوئے ایک معیاری وقت نافذ کر دیا تھا۔ بیجنگ عالمی معیاری وقت سے آٹھ گھنٹے آگے ہے۔ اب سارے چین میں یہی نظام رائج ہے۔ ایک ٹائم کے نفاذ کی وجہ سے اس ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے چینی باشندوں کو اپنے جسم کے اندر بھی نئے معیاری وقت کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑی تھیں۔
تصویر: Reuters/China Daily
رات کے اُلُو
اسپین کے ڈکٹیٹر فرانسیسکو فرانکو نے سن 1840 میں اپنی غیرجانبداری کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے معیاری وقت کو سینٹرل یورپی ٹائم کے برابر کر دیا تھا۔ یہ وقت نازی جرمنی کے مساوی تھا۔ اس باعث اسپین میں سورج جلدی طلوع ہو جاتا ہے اور غروب بھی دیر سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
ماضی سے نجات
جزیرہ نما کوریا میں بھی معیاری وقت میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سن 2015 میں انتہائی کشیدگی کے دور میں شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو جنوبی کوریا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریائی حکومت نے وقت کی تبدیلی کو جزیرہ نما کوریا میں جاپانی نوآبادیاتی دور کے وقت کو تبدیل کرتے ہوئے اُس عہد سے چھٹکارہ حاصل کرنا قرار دیا تھا۔ جاپان جزیرہ نما کوریا پر سن 1910 سے 1945 تک حاکم رہا تھا ۔
تصویر: picture-alliance/MAXPPP
مختلف ہونے کا احساس
نیپال بھی وقت کے حوالے سے قدرے غیرمعمولی ہے۔ یہ ملک اپنے ہمسائے بھارت سے پندرہ منٹ آگے ہے اور اس طرے عالمی معیاری وقت سے اس کا فرق پانچ گھنٹے پینتالیس منٹ ہے، جو حیرانی کا باعث ہے۔ نیپالی حکومت نے اپنے معیاری وقت کو بھارت سے پندرہ منٹ آگے کر کے جو فرق پیدا کیا ہے، اُس نے نیپالی عوام کو اپنا علیحدہ وقت رکھنے کا احساس دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
بجلی بچاؤ، مستقبل کو بہتر کرو
وینزویلا کے صدر نکولاس مادُورو نے سن 2016 میں اپنے معیاری وقت کو تیس منٹ آگے کر دیا تھا۔ یہ ملک عالمی معیاری وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے۔ اس فیصلے سے مادورو نے اپنے پیشرو ہوگو چاویز کے سن 2007 کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ مادورو نے يہ قدم بجلی بچانے کے مقصد سے اٹھايا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ایک طویل جست
وقت کے اعتبار سے سب سے بڑی جست بحر الکاہل کے ملک سموآ نے لگائی۔ سن 2011 میں سموآ نے معیاوی وقت میں ایک پورے دن کا فرق پیدا کر دیا۔ یہ پہلے سڈنی سے 21 گھنٹے پیچھے تھا اور پھر اس کے معیاری وقت کو سڈنی سے 3 گھنٹے آگے کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں سموآ کے بادشاہ نے امریکا سے وابستگی کے تحت معیاری وقت امریکا کے مساوی کر دیا تھا۔ اس تبديلی سے سموآ کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
ہاوربیک کو نازی سوشلسٹوں کے دور میں لاکھوں یہودیوں کے قتل عام کا انکار کرنے پر دو برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ہاوربیک کو جرمن میڈیا پر ’نازیوں کی نانی‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ ہاوربیک پر ماضی میں بھی ہولوکاسٹ کے انکار کا جرم متعدد مرتبہ ثابت ہو چکا ہے، تاہم انہیں کبھی جیل نہیں بھیجا گیا۔ جرمن قانون کے مطابق نازیوں کے ہاتھوں سن 1941 تا 1945 کم از کم چھ ملین یہودی قتل ہوئے اور ان حقائق کا انکار قابل تعزیر جرم ہے۔
ہاوربیک کو بدھ کے روز اپنی سزائے قید کے آغاز کے لیے جرمن شہر بیلے فیلڈ کی جیل پہنچنا تھا، تاہم وہ نہ آئیں۔ بین الاقوامی آؤشوٹس کمیٹی کی جانب سے اتوار کے روز اس امید کا اظہار کیا گیا تھا کہ ارزلا ہاوربیک جلد ہی جیل میں ہوں گی۔ اس کمیٹی کے ایگزیکٹیو نائب صدر کرسٹوف ہاؤبنر کے مطابق، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ عدلیہ اور پولیس انہیں جلد ہی ڈھونڈ لیں گے۔‘‘
جرمن اخبار ویسٹ فالین بلاٹ کے مطابق جرمنی کے وسطی قصبے فلوتھو میں ہاوربیک کا مکان ممکنہ طور پر کافی روز سے خالی ہے، کیوں کہ اس مکان پر پوسٹ اور اخبارات کا ڈھیر دکھائی دیتا ہے، جیسے کسی نے یہ اخبارات اور خطوط اٹھائے ہی نہ ہوں۔
ہاوربیک نے اپنے مقدمے کے دوران متعدد مرتبہ ’’آؤشوٹس کو جھوٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ کوئی ’اذیتی مرکز نہیں تھا بلکہ مشقت کا مرکز تھا۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ ارزلا ہاوربیک اور ان کے شوہر ویرنر گیورگ ہاوربیک نازی پارٹی کے متحرک ارکان تھے۔ انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی پرچار کے لیے ’تعلیمی مرکز‘ قائم کیا تھا، جس کا نام کولیگیوم ہومانوم تھا۔ اس مرکز کو سن 2008ء میں بند کر دیا گیا تھا۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
ہاوربیک انتہائی دائیں بازو کے مجلے ’شٹِمے ڈیس رائشیس‘‘ یا ’سلطنت کی آواز‘ میں بھی لکھتی رہیں۔ اپنے مضامین میں ان کا موقف تھا کہ ’ہولوکاسٹ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔‘‘
جرمن قانون کے تحت ہولوکاسٹ کا انکار تشدد انگیزی کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی سزا پانچ برس تک قید کی صورت میں ہو سکتی ہے۔