ہينڈز، سندھ ميں سيلاب زدگان کی امداد ميں پيش پيش
30 اگست 2010پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ ميں بھی بہت بڑی تعداد ميں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نسبتاً محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہيں۔ ٹھٹھہ کے زير آب آنے کے خدشے کے پيش نظر اُس کے ساڑھے تين لاکھ شہريوں ميں سے اکثر شہر چھوڑ کر چلے گئے ہيں ليکن خوش قسمتی سے يہ شہر سيلاب کی زد سے محفوظ رہا ہے۔ تاہم لوگ خوف کی وجہ سے اپنے گھروں کو واپس نہيں جا رہے ہيں۔ سندھ ميں ايسی سڑکوں کے کنارے لوگوں نے عارضی رہائش گاہيں بنا لی ہيں، جہاں پہلے بہت کم ہی گاڑياں آتی جاتی تھيں۔
پاکستانی امدادی تنظيم ہينڈز کے مرتضی نوناری نے بتايا کہ لوگ جو کچھ اسباب ممکن ہوسکا، اسے بچا کر اپنے ساتھ لے گئے ہيں، ليکن پھر بھی ان کا بہت سا سامان اور چيزيں پانی ہی ميں پڑی ہيں يا بہہ گئی ہيں۔ ہينڈز جيسی تنظيميں، غير ملکی امدادی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستانی سيلاب زدگان کی مدد ميں ہاتھ بٹا رہی ہيں۔ان امدادی تنظيموں ميں، ميڈيکو انٹرنيشنل، کير، اور آکسفيم جيسی امدادی تنظيميں بھی شامل ہيں۔ ايک کسان نے بتايا:"ہينڈز ہميں کھانا پکانے کا تيل، گندم اور دوسری غذائی اشياء فراہم کر رہی ہے۔ "
اس کسان نے کہا کہ اسے نہ تو ان بڑے زمينداروں سے، جنہيں اُسے اپنی فصل کا آدھا حصہ ادا کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی سرکاری حکام يا کسی اور تنظيم کی جانب سے کسی قسم کی مدد ملی ہے۔
شايد اس کی وجہ يہ ہے کہ کشمور، جہاں اس کسان نے مزيد 2000 ہزار سيلاب زدگان کے ساتھ پناہ لی ہے، بڑی سڑکوں سے دور واقع ہے اور شايد اس لئے بھی کيونکہ سيلاب کی تباہی يہاں بہت زيادہ شديد ہے۔
مرتضی نوناری اس پر بددل ہيں کہ اقوام متحدہ کی ذيلی تنظيموں نے يہاں علاج کا ايک بھی مرکز قائم نہيں کيا ہے حالانکہ اس کی شديد ضرورت ہے۔
مرتضی کی امدادی تنظيم ہينڈز اب تک سندھ ميں 85 ہزار افراد کو سيلاب ميں بہہ جانے سے بچا چکی ہے۔ اُس نے تقريباً 10 ہزار متاثرين کے لئے 44 کيمپ قائم کئے ہيں۔اُس کے کارکن لوگوں کو کھانے پينے کا سامان اور اُن کے مويشيوں کے لئے چارہ مہيا کر رہے ہيں۔ اس کے علاوہ وہ طبی امداد بھی دے رہے ہيں۔ اُن کے ڈاکٹر ايسے متاثرين کے علاج کے لئے بھی جا رہے ہيں، جو ابھی تک سيلاب زدہ علاقوں ميں موجود ہيں۔
رپورٹ: زابینا ماتھے (لاہور) / شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی