ہٹلر کا امریکا میں مقیم یہودیوں سے متعلق کیا منصوبہ تھا؟
27 جنوری 2019
ایک کینیڈین آرکائیو نے ایک ایسی کتاب حاصل کر لی ہے جس سے امریکا اور کینیڈا میں بسنے والے یہودیوں کے بارے میں اڈولف ہٹلر کے ممکنہ ارادوں کے اشارے ملتے ہیں۔ یہ کتاب ہٹلر کی ملکیت میں تھی۔
اشتہار
کینیڈین آرکائیو کے مطابق اس کتاب کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر دوسری عالمی جنگ کا نتیجہ ہٹلر اور نازیوں کے حق میں نکلتا تو شمالی امریکا میں کیا کیا ہو سکتا تھا۔
یہ کتاب ہٹلر کی ذاتی لائبریری میں تھی اور اس میں امریکا اور کینیڈا میں مقیم یہودی آبادی کے اعداد و شمار، یہودیوں کی ملکیت والے اداروں اور میڈیا کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔
لائبریری اور آرکائیو کینیڈا نے بتایا ہے کہ ایک سو سینتیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب جرمن زبان میں ہے اور اس کا عنوان ’Statistics, Media, and Organizations of Judaism in the United States and Canada‘ ہے۔ ادارے کے مطابق کتاب کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ نازیوں کا ارادہ ہولوکاسٹ کو صرف یورپ تک محدود رکھنے کا نہیں تھا۔ ہولوکاسٹ کے امریکا تک پہنچنے سے قبل ہی نازی شکست کھا گئے تھے ورنہ شمالی امریکا کی صورت حال بھی مختلف ہوتی۔
یہ کتاب جرمن ماہر لسانیات ہائنز کلوس نے سن 1944 میں مرتب کی تھی۔ کلوس نازی حکومت کے لیے تحقیق اور معلومات جمع کرنے کے کام پر مامور تھے۔ وہ اشٹٹ گارٹ-ہیمبرگ پبلیکیشنز کے سربراہ بھی تھے جو کہ قومیت اور خاص طور پر امریکا سے متعلق تحقیق کے لیے وقف ادارہ تھا۔
کلوس امریکا میں جرمن بولنے والے افراد اور نازیوں کے حامیوں سے بھی رابطے میں تھے۔ انہوں نے سن 1936 اور 1937 کے دوران امریکا کا دورہ بھی کیا تھا۔
یورپ میں ہولوکاسٹ کے دوران سن 1941 سے لے کر سن 1945 کے درمیان چھ ملین سے زائد یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔
’خوف غیرحقیقی نہیں تھا‘
اوٹاوا یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ریبیکا مارگولیس کے مطابق یہ کتاب اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کینیڈا میں مقیم یہودی جس خوف میں مبتلا تھے، وہ غیر حقیقی نہیں تھا۔
مارگولیس کے مطابق، ’’دوسری عالمی جنگ کے دوران کینیڈا میں مقیم یہودیوں کی اکثریت اس خوف کا مسلسل اظہار کر رہی تھی کہ نازی شمالی امریکا کے ساحلوں پر اتریں گے اور اس کے بعد اس خطے میں یہودیوں کی نسل کا خاتمہ کر دیں گے، کوئی غیر حقیقی خوف نہیں تھا بلکہ اس کتاب کے مندرجات سے ان لوگوں کے خدشات کی تصدیق ہوتی ہے۔‘‘
کینیڈین لائبریری اور آرکائیو نے بھی اس کتاب کے مندرجات پیش نظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کا نتیجہ مختلف ہوتا تو نتائج کس قدر بھیانک ہو سکتے تھے۔
ش ح / ع ب (لوئیزا رائٹ)
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔