ہٹلر کی کتاب، انٹرنیٹ پر ایک ہِٹ
13 جنوری 2014نومبر 2012ء سے ہٹلر کی یہ بدنامِ زمانہ کتاب برطانیہ میں ’مائی اسٹرگل‘ اور امریکا میں ’مائی بَیٹل‘ کے نام سے انٹرنیٹ وَیب سائٹ ایمازون ڈوٹ کوم پر صرف ننانوے سینٹ میں جبکہ آئی ٹیونز پر دو ڈالر ننانوے سینٹ میں خریدی جا سکتی ہے اور حیرت انگیز طور پر اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔
امریکا میں ایمازون کی وَیب سائٹ پر اس کتاب کو پانچ میں سے تین اعشاریہ آٹھ سٹارز ملے ہیں اور اس پر تین سو چوّن تبصرے ہیں، جن میں سے چند ایک میں اس کتاب کو ایک ’مسحور کُن‘ مطالعہ قرار دیا گیا ہے جبکہ دیگر میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کے قتلِ عام کی سرے سے نفی کی گئی ہے۔
جرمنی میں اس کتاب پر پابندی
’میری جدوجہد‘ نامی یہ کتاب دو جلدوں میں سب سے پہلے 1925ء میں شائع ہوئی تھی اور اِس میں ہٹلر نے اپنے سیاسی نظریات کے ساتھ ساتھ جرمنی کے مستقبل کے حوالے سے منصوبوں کا بھی ذکر کیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک اس کی تقریباً ایک کروڑ کاپیاں جرمنی میں تقسیم یا فروخت کی جا چکی تھیں۔
ہٹلر کی طرف سے کیے گئے مظالم کے پس منظر میں 1945ء کے بعد سے جرمنی میں یہ کتاب شائع نہیں کی گئی۔ تیس اپریل 1945ءکو ہٹلر کی خود کُشی کے ساتھ ہی اُس کی پوری جائیداد کے حقوق، جس میں اس کتاب کے حقوق بھی شامل تھے، جنوبی جرمن صوبے باویریا کو منتقل ہو گئے، جہاں ہٹلر کی آخری سرکاری رہائش گاہ تھی۔ باویریا ابھی بھی اس کتاب کی اشاعت کی اجازت نہیں دے رہا ہے تاہم اگلے برس کے اختتام پر ستر سال کی مدت مکمل ہونے پر باویریا کو حاصل اس کتاب کے کاپی رائٹ حقوق کی مدت بھی اختتام کو پہنچ جائے گی۔
انٹرنیٹ پر ’مائن کامپف‘ کی بڑھتی مقبولیت
انٹرنیٹ پر سترہ سے زائد وَیب سائٹس ایسی بھی ہیں، جہاں یہ کتاب مکمل شکل میں یا پھر مختلف حصوں کی شکل میں مفت بھی دستیاب ہے اور اس کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صحافی کرس فاراؤن کے مطابق انٹرنیٹ پر اس کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی اس کتاب کو اُن کے بُک شیلف میں دیکھے یا اُنہیں اِسے ہاتھ میں تھامے اس کا مطالعہ کرتے دیکھے جبکہ آن لائن وہ اسے خاموشی کے ساتھ اور کسی کے علم میں لائے بغیر پڑھ سکتے ہیں۔
نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی سے وابستہ امریکی مؤرخ پروفیسر گیرہارڈ وائن بیرگ نے 1961ء میں ہٹلر کی دوسری کتاب شائع کی تھی۔ یہ ایک طرح سے ’مائن کامپف‘ ہی کا اگلا حصہ تھا، جسے ہٹلر نے 1928ء کے لگ بھگ تحریر کیا تھا۔ جرمنی سے 1938ء میں فرار ہو کر امریکا چلے جانے والے اٹھاسی سالہ وائن بیرگ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اُن کے خیال میں لوگوں میں پایا جانے والا تجسس انٹرنیٹ پر اس کتاب کی مقبولیت کی ایک وجہ ہے۔ اُن کے بقول دوسری ممکنہ وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہٹلر کو درست سمجھتے ہیں، وہ اب باقاعدہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہٹلر کے سوچنے کا انداز کیا تھا۔
’’اشاعت پر پابندی نہیں ہونی چاہیے لیکن ...‘‘
وائن بیرگ کے خیال میں اس کتاب کی اشاعت پر پابندی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا تاہم وہ جرمنی میں اس کتاب پر پابندی جاری رہنے کے حق میں ہیں۔ وائن بیرگ کے مطابق، ’اگر کوئی شخص زندگی کے کسی حصے میں تپ دِق کا شکار رہا ہو تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنا طبّی معائنہ کرواتا رہے تاکہ مرض دوبارہ سر نہ ابھارے۔ چونکہ جرمنی میں ایک دور میں بہت زیادہ تعداد میں لوگ اس سیاسی تپِ دق کا شکار رہ چکے ہیں، اس لیے دیگر ملکوں کے مقابلے میں جرمنی میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے‘۔
واشنگٹن میں جرمن ہسٹوریکل انسٹیٹیوٹ سے وابستہ محقق ڈاکٹر رچرڈ ویٹسل کے خیال میں بھی اس کتاب کی اشاعت پر پابندی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک تاریخی دستاویز ہے، ہاں اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ اس کتاب کو ایسی شکل میں شائع کیا جائے کہ ساتھ ساتھ مؤرخین کے تبصرے بھی شائع کیے جائیں۔