ہٹلر کے پیدائشی گھر پر سرکاری قبضے کے جھگڑے میں عدالتی فیصلہ
12 اپریل 2019
آسٹریا کی ایک عدالت نے نازی جرمنی کے رہنما اڈولف ہٹلر کے پیدائشی گھر کے سرکاری ملکیت اور قبضے میں لیے جانے سے متعلق قانونی تنازعے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس گھر کی سابقہ مالکہ نے ڈیڑھ ملین یورو زر تلافی طلب کیا تھا۔
اشتہار
ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں واقع اور جرمنی کے ہمسایہ یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے جمعہ بارہ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ایک اعلیٰ عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ اس درخواست دہندہ خاتون کو، جو اڈولف ہٹلر کے پیدائشی گھر کی سابقہ مالکہ ہے، اتنا زر تلافی ادا نہیں کیا جا سکتا جتنا اس نے طلب کیا ہے۔
ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کے مختلف ایڈیشن
اڈولف ہٹلر کی نفرت انگیز سوانحی عمری اور سیاسی منشور ’مائن کامپف‘ یا ’میری جدوجہد‘ 2016ء سے ایک مرتبہ پھر جرمن کتب خانوں میں فروخت کے لیے دستیاب ہو گی۔
تصویر: Arben Muka
ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ
نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ بدنام زمانہ کتاب ’میری جدوجہد‘ کا ایڈیشن اعلیٰ افسران کو دیا جاتا تھا یا پھر شادی کے تحائف کے طور پر۔ دنیا بھر میں تاریخی کتب جمع کرنے والے کئی ایسے افراد ہیں، جو اس ایڈیشن کی ایک کاپی کے لیے بڑی سے بڑی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عربی ایڈیشن
’میری جدوجہد‘ کا عربی زبان میں ترجمہ 1950ء میں کیا گیا تھا۔ اس ایڈیشن کے پس ورق پر ہی سواستیکا کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/akg-images
’میری جدوجہد‘ فرانسیسی زبان میں
1939ء میں شائع ہونے والے فرانسیسی زبان کے ایڈیشن میں درج ہے کہ ’یہ کتاب ہر فرانسیسی کو پڑھنا چاہیے‘۔ یہ سفارش پہلی عالمی جنگ میں فرانسیسی وزیر جنگ کے فرائض انجام دینے والے مارشل Hubert Lyautey نے کی تھی، جو بعد میں ایک ’نوآبادیاتی منتظم‘ بھی بنے تھے۔ وہ دوسری عالمی جنگ سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ دائیں طرف دکھائی دینے والا ایڈیشن بعد میں شائع ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/Gusman/Leemage /Roby le 14 février 2005.
برطانیہ میں اشاعت
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر کی کوشش تھی کہ وہ برطانیہ پر قبضہ کر لے تاہم برطانوی افواج کے حوصلوں کے آگے یہ نازی رہنما ناکام رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں ماضی کے اس جرمن آمر سے بہت نفرت کی جاتی ہے، لیکن برطانیہ میں ’مائن کامپف‘ کی اشاعت پر لندن حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/photoshot
’میری جدوجہد‘ سرخ رنگ میں
جنگی زمانوں کی شخصیات اور حالات و واقعات سے متعلق یادگاری اشیاء میں کسی اور ملک کے شہریوں کو اتنی زیادہ دلچسپی نہیں جتنی کہ اس حوالے سے یادگاری اشیاء جمع کرنے والے امریکیوں کو ہے۔ امریکا کے مقابلے میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جہاں ’مائن کامپف‘ کی طلب اتنی زیادہ ہو۔ خصوصی ایڈیشنز کی نیلامی میں وہاں ایک کاپی کی بولی 35 ہزار ڈالر سے شروع ہو سکتی ہے۔
تصویر: F. J. Brown/AFP/Getty Images
ہٹلر افغانستان میں
افغانستان میں سڑک پر لوگ ’میری جدوجہد‘ کھلے عام فروخت کرتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق یہ عمل غیر قانونی نہیں ہے۔ وہاں نازی دور کے پراپیگنڈا پوسٹر بھی بکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سربیا میں نازی آمر کی کتاب
سربیا کے دارالحکومت میں اڈولف ہٹلر کی کتاب ’میری جدوجہد‘ 2013ء میں ایک کتاب میلے میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔ تاہم اس ایڈیشن میں تبصرے بھی شامل تھے۔
تصویر: DW/N. Velickovic
ہٹلر کتب خانوں کی کھڑکیوں میں
البانیہ کے دارالحکومت تیرانہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے آپ کی آنکھیں ہٹلر کی آنکھوں سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ البانیا کا دارالحکومت غالباﹰ دنیا کا ایسا واحد شہر ہے، جہاں ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کی جلدیں شیشے کی الماریوں میں یوں کھلے عام رکھی ہوتی ہیں کہ وہ نزدیک سے گزرنے والوں کو دیکھتی رہتی ہیں۔
تصویر: Arben Muka
8 تصاویر1 | 8
یہ عدالتی تنازعہ جس عمارت سے متعلق ہے، اڈولف ہٹلر وہیں پر پیدا ہوا تھا۔ اس عمارت کو تین سال قبل حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لیا تھا۔
اس پر اس عمارت کی سابقہ مالکہ نے ایک قانونی دعویٰ دائر کرتے ہوئے اپنے لیے ڈیڑھ ملین یورو کے زر تلافی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ رقم تقریباﹰ 1.7 ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
یہ گھر جرمنی اور آسٹریا کے درمیان سرحد کے قریب آسٹرین قصبے براؤناؤ میں واقع ہے۔
1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں برلن میں اپنی زیر زمین پناہ گاہ میں خود کشی کر لینے والا نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر اسی گھر کے ایک فلیٹ میں 1889ء میں پیدا ہوا تھا۔
ایک شیر خوار بچے کے طور پر اپنی زندگی کے اولین مہینے ہٹلر نے اسی گھر میں گزارے تھے۔
2016ء میں آسٹرین حکومت نے اس عمارت کو یہ سوچ کر زبردستی اپنے ملکیت میں لے لیا تھا کہ وہ ہٹلر کی جائے پیدائش کے طور پر نئے نازی انتہا پسندوں کے لیے پرکشش اور ان کی توجہ کا مرکز نہ بن جائے۔ یہ گھر اپنی ابتدائی شکل میں 500 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جہاں ہٹلر کی پیدائش آج سے ٹھیک 130 برس قبل ہوئی تھی۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
اس مکان پر حکومتی قبضے کے بعد ایک علاقائی عدالت نے اس سال فروری میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت اس عمارت کی ملکیت کے بدلے متعلقہ خاتون کو 1.5 ملین یورو زر تلافی ادا کرے۔ لیکن جمہوریہ آسٹریا کی قانونی نمائندگی کرتے ہوئے ویانا میں ملکی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف یہ کہتے ہوئے اپیل دائر کر دی تھی کہ یہ زر تلافی بہت زیادہ تھا اور اسے کافی کم ہونا چاہیے تھا۔
اب آسٹرین صوبے لِنس کی ایک اعلیٰ علاقائی عدالت نے اپنے فیصلے میں ازالے کی ان رقوم کی مالیت تقریباﹰ نصف کر کے آٹھ لاکھ بارہ ہزار یورو کر دی ہے۔ ویانا میں ملکی وزارت داخلہ کے مطابق عدالت نے یہ فیصلہ جمعرات گیارہ اپریل کو سنایا اور اس خاتون کو 812,000 یورو کی رقم ادا بھی کر دی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق عدالت نے اپنے ایک روز پہلے سنائے گئے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ اس عمارت کی سابقہ مالکہ اور مدعیہ اگر چاہے تو وہ اس تازہ فیصلے کے خلاف ملکی سپریم کورٹ میں اپیل بھی کر سکتی ہے۔
م م / ا ا / ڈی پی اے
فوکس ویگن بیٹل، ’انقلابی‘ گاڑی
نازی سوشلسٹوں کے ایک بڑے منصوبے نے دنیا کی کار ساز صنعت میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ 82 سال قبل اڈولف ہٹلر نے ریاست لوئر سیکسنی کی ایک فیکٹری میں ’بیٹل‘ کی تیاری کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ گاڑی آج بھی سڑکوں پر دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہٹلر کی ’عوامی کار‘
یہ تصویر 26 مئی 1938ء کی ہے، جب اڈولف ہٹلر کو پہلی مرتبہ فوکس ویگن بیٹل (کےفر) کی پروٹوٹائپ ماڈل کار دکھائی گئی تھی۔ نازیوں نے فرڈینانڈ پورشے سے کہا تھا کہ وہ ایک ایسی عوامی کار تیار کریں، جو سستی بھی ہو اور پائیدار بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عوامی سے فوجی گاڑی میں تبدیلی
مسلج افواج کو حاصل فوقیت، ہٹلر کی جنگی مہمات کی وجہ سے فوکس ویگن کو عسکری گاڑیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ساڑھے نو سو کلو وزنی یہ گاڑی محاذوں پر پیش پیش ہوتی تھی۔ روس میں ایک فوجی کارروائی کے بعد جنرل فان مانٹوئفل اپنے سپاہیوں کے ساتھ ایک گاڑی کو کیچڑ سے نکال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
بیٹل کی مقبولیت
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے صرف دس سال بعد فوکس ویگن کی وولفسبرگ میں قائم فیکٹری میں دس لاکھ بیٹل تیار ہو چکی تھیں۔ اس کار نے جرمن معیشت کی مضبوطی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نسل در نسل
فوکس ویگن کی بیٹل کے حوالے سے سوچ یہ تھی کہ ایسی گاڑی تیار کی جائے، جس میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو، جو قابل بھروسہ بھی ہو اور سستی بھی۔ 1960ء کی دہائی میں یہ کار بہت سے خاندانوں کی خواہشات کے عین مطابق تھی۔ فوکس ویگن 1200 نامی ماڈل میں ’سن رُوف‘ بھی متعارف کرا دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہل بھی چلایا گیا
فوکس ویگن ’کےفر‘ یا بیٹل کی ایک خاصیت یہ بھی رہی ہے کہ اسے کھیتی باڑی میں بھی استعمال کیا گیا۔ 1950ء کی دہائی میں ہل چلانے اور دیگر سخت کاموں میں کسی بیل یا ٹریکٹر کے بجائے بیٹل سی مدد لی گئی۔
تصویر: ullstein bild - Teutopress
پروڈکشن کی خاتمہ
ایک دور کا خاتمہ: یکم جولائی 1974ء کو جرمن شہر وولفسبرگ میں آخری بیٹل تیار کی گئی اور اس کا نمبر تھا 11.916.519۔ تاہم اس کے بعد بھی میکسیکو اور برازیل میں بیٹل کاریں تیار کی جاتی رہیں۔
تصویر: AP
کار سے حد سے زیادہ لگاؤ
میکسیکو کی بیٹل زندہ باد۔ میکسیکو کے شہر پوئبلا میں بیٹل کی پیداوار تیس جولائی 2003ء تک جاری رہی۔ میکسیکو میں قائم فوکس ویگن کی فیکٹری کے بہت سے ملازمین ایسے تھے، جنہوں نے آپس میں ہی شادیاں کر لی تھیں اور یہ اپنی شادی میں شرکت کے لیے بھی بیٹل میں ہی بیٹھ کر آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
برازیل کی ’فسکا‘
1993ء میں برازیل کے اس وقت کے صدر اتامر فرانکو نے بیٹل کی دوبارہ سے پروڈکشن شروع کرنے کا حکم دیا۔ برازیل میں بیٹل کو فسکا کہتے ہیں۔ 1959ء سے 1986ء تک یہاں تقریباً تینتیس لاکھ فسکا تیار کی گئی تھیں جب کہ 1993ء سے 1996ء تک چھیالس ہزار بیٹل کاریں بنائی گئیں۔
تصویر: Volkswagen do Brasil
عوامی سے بین الاقوامی کار
دنیا کے دیگر ممالک جیسے جنوبی افریقہ، بیلجیم، آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں بھی بیٹل کاریں تیار کی جاتی رہیں۔ جرمنی کی ایک عوامی کار نے سب کو متاثر کیا۔ دنیا بھر میں بائیس ملین بیٹل تیار اور فروخت ہوئیں۔ ابھی بھی بہت سے ممالک میں بیٹل سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں، جیسے اس تصویر میں مصر میں۔
تصویر: Masr Betelz Club
نئی بیٹل
1998ء میں فوکس ویگن نے نیو بیٹل متعارف کرائی۔ اس کار کا ڈیزائن بھی پرانی کار کی طرز پر تیار کیا گیا تھا، جیسا فرڈینانڈ پورشے نے تخلیق کیا تھا۔