’ہٹلر یوتھ سالومن‘ ستانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے
3 فروری 2023
دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کے قتل عام کے دوران زندہ بچ جانے والے سیلی پیرل ستانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ انہیں ان کی خود نوشت سوانح حیات ’میں ہٹلر یوتھ کا سالومن تھا‘ کے باعث بین الاقوامی شہرت ملی تھی۔
اشتہار
سیلی پیرل کا انتقال 97 برس کی عمر میں اسرائیل میں ان کے گھر پر ہوا اور ان کی موت کا اعلان یروشلم میں ہولوکاسٹ کی یادگار یاد واشیم میموریل کی طرف سے جمعرات دو فروری کی رات کیا گیا۔ پیدائشی طور پر جرمنی سے تعلق رکھنے والے سیلی پیرل کی خود نوشت سوانح حیات I was Hitler Youth Salomon کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی تھی۔
اسی کتاب کو بنیاد بنا کر ان کی زندگی پر 1990ء میں ڈائریکٹر اگنیسکا ہالینڈ نے ایک فلم بھی بنائی تھی، جسے کئی بین الاقوامی ایوارڈ ملے تھے۔
اشتہار
جرمنی میں آبائی تعلق لوئر سیکسنی سے
سیلی پیرل 1925ء میں جرمنی میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا تعلق لوئر سیکسنی کے علاقے سے تھا۔ وہ لوئر سیکسنی میں شہر براؤن شوائگ کے قریب پائنے نام قصبے میں پیدا ہوئے تھے اور نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی سے فرار ہو کر پولینڈ چلے گئے تھے۔ بعد میں انہیں پولینڈ سے بھی فرار ہونا پڑا تھا۔
پیرل کو پیش قدمی کرتے ہوئے جرمن دستوں نے 1941ء میں ماضی کی ریاست سوویت یونین کے علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ وہ ہولوکاسٹ کہلانے والے یہودی قتل عام کے دوران اس لیے زندہ بچ گئے تھے کہ تب انہوں نے اپنے لیے نسلی طور پر ایک اقلیتی جرمن باشندے کی نقلی شناخت اپنا لی تھی۔
ٹافیوں کی بمباری کرنے والا پائلٹ چل بسا
01:31
'ہٹلر یوتھ‘ کے اسکول میں تعلیم و تربیت اور قیام
اپنی گرفتاری کے بعد سیلی پیرل نے سابق سوویت یونین میں نازی دستوں کی طرف سے 'مشرقی محاذ‘ کہلانے والے جنگی میدان میں ایک سال تک خدمات انجام دی تھیں۔
اس کے بعد انہیں تعلیم و تربیت اور قیام کے لیے ہٹلر کے پرستار جرمن نوجوانوں کے لیے قائم کردہ ایک 'ہٹلر یوتھ اسکول‘ میں بھیج دیا گیا تھا۔
وہاں انہیں ہر روز یہ خطرہ رہتا تھا کہ کسی دن ان کی اصلی شناخت سامنے آ جائے گی۔
ان کے لیے یہ خطرہ اور جان سے مار دیے جانے کا خوف دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک باقی رہے تھے۔ 'میں ہٹلر یوتھ کا سالومن تھا‘ ان کی زندگی کے ایسے ہی واقعات کی روداد ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سیلی پیرل ترک وطن کر کے اسرائیل میں آباد ہو گئے تھے۔ 1999ء میں انہیں جرمن اسرائیلی مفاہمت کی ترویج کے لیے جرمنی کی طرف سے فیڈرل کراس آف میرٹ نامی اعلیٰ سول ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے 75 برس بعد، برلن میں موجود یادگاریں
کئی برس تک کے تشدد اور تباہی کے بعد، دوسری عالمی جنگ 75 برس قبل ختم ہوئی تھی۔ جرمن دارلحکومت برلن میں موجود بہت سی یادگاریں تاریخی واقعات کا نشان ہیں یا پھر جنگ کا شکار ہونے والوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/Y. Tang
رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت
30 اپریل 1945ء کو دو سوویت فوجیوں نے برلن میں رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت پر سُرخ پرچم لہرایا تھا۔ حالانکہ یہ بات اب معلوم ہے کہ یہ تصویر اصل واقعے کے دو روز بعد اسے دہرا کر بنائی گئی تھی، پھر بھی یہ 20ویں صدی کی معروف ترین تصاویر میں سے ایک ہے جو ہٹلر کے خلاف فتح، نازی جماعت کے تباہی اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی علامت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن - روسی عجائب گھر
آٹھ مئی 1945ء کو برلن کے علاقے کارل ہورسٹ میں واقع آفیسرز میس میں جرمن فوج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ جرمن روسی عجائب گھر میں یہ دستاویز موجود ہے، جسے انگریزی، روسی اور جرمن زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اس میوزیم میں نازی حکومت کی طرف سے سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع کرنے سے متعلق تفصیلات موجود ہیں جو 25 ملین افراد کی زندگی لے گئی۔
تصویر: picture-alliance/ZB
اتحادی عجائب گھر
مغربی اتحادی یعنی امریکا، برطانیہ اور فرانس جولائی 1945 میں شہر کے مغربی حصوں پر قبضہ کرنے سے قبل برلن میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ امریکی فورسز کا مرکز زیلنڈورف ڈسٹرکٹ تھا۔ سابق تھیئٹر سنیما کی عمارت اب الائیڈ میوزیم کا حصہ ہے۔ اس میوزیم میں جنگ کے بعد کے برلن کے بارے میں معلومات موجود ہیں جن میں 1948ء کا ایئرلِفٹ اور 1994ء میں امریکی فورسز کے انخلا تک کے واقعات شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/D. E. Hoppe
سوویت وار میموریل
ایک سوویت فوجی بچائے گئے ایک بچے کو اپنے بازو میں اٹھائے ہوئے ہے جبکہ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار ہے جس کا رُخ نیچے کی جانب ہے۔ یہ بہت بڑا یادگاری مجسمہ ٹریپٹو میں موجود سوویت فوجی میموریل میں نصب ہے۔ یہ ملٹری قبرستان ہے جس میں وہ سات ہزار سوویت فوجی دفن ہیں جو 1945ء میں برلن میں ہونے والی لڑائی میں مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin/J. Knappe
دولت مشترکہ، جنگی قبرستان
برلن کے علاقے ہیئر اسٹراسے میں واقع قبرستان میں ایئرفورس کے قریب 3600 فوجی دفن ہیں۔ اسے 1995ء اور 1957ء کے دوران برطانیہ اور دولت مشترکہ کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کے یادگاری قبرستان میں بدل دیا گیا۔ یہ آج بھی برطانوی تاج کی خصوصی نگرانی میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/Schoening Berlin
جرمن مزاحمت کی یادگار
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے قریب ایک برس قبل 20 جون 1944ء کو جرمن افسران کے ایک گروپ نے ہٹلر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ کوشش ناکام ہو گئی اور اس میں ملوث افسران کو سزائے موت دے دی گئی۔ جرمن مزاحمت کی یادگار اس مرکز میں نازی حکومت کے خاتمے کی کوشش کرنے والے ان افسران کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
برلن کی نیدرکرشن اسٹراسے پر موجود ’ٹوپوگرافی آف ٹیرر‘ پر ہر سال ایک ملین سے زائد افراد آتے ہیں۔ یہ برلن میں کسی بھی یادگاری مقام پر سالانہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 1933ء سے 1945ء تک یہ خفیہ ریاستی پولیس اور ایس ایس کا ہیڈکوارٹر رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ مقام ہے جہاں نازی حکومت کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
یورپ میں قتل ہونے والے یہودیوں کی یادگار
لہروں کی شکل میں تعمیر کیے گئے یہ 2711 ستون، ان قریب 6.3 ملین یورپی یہودیوں کی یادگار ہیں جنہیں نازی دور حکومت میں قتل کیا گیا۔ ہولوکاسٹ میوزیم کے بالکل سامنے موجود یہ مقام نازی اذیتی کیمپوں میں یہودیوں پر ڈھائے جانے والے منظم ظلم وستم کی یاد تازہ کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
کائزر وِلہیلم میموریل چرچ
برائٹس شیڈپلاٹز پر واقع کائزر وِلہیلم میموریل چرچ کو 1943ء میں ہونے والی بمباری میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں جب اس کی دوبارہ تعمیر اور تزئین کی جا رہی تھی تو برلن کے عوام نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ جس کے بعد 71 میٹر اونچے مینار کی باقیات کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ یہ جنگ اور تباہی کے خلاف اور امن اور مفاہمت کے حق میں ایک انتہائی واضح یادگار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Günther
9 تصاویر1 | 9
ہولوکاسٹ کے ڈیڑھ لاکھ عینی شاہدین آج بھی زندہ
سیلی پیرل یا 'ہٹلر یوتھ کے سالومن‘ کی موت پر جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے وزیر اعلیٰ شٹیفان وائل نے خاص طور پر ان کے اہل خانہ او لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے۔
شٹیفان وائل نے کہا، ''جس طرح سیلی پیرل نے اُس دور کے حالات اور اپنی زندگی کے واقعات کو قلم بند کیا، اس پر اور ان کی طرف سے مفاہمت کی ترویج کے لیے نئی نسل کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے کی کوششوں پر ہم ان کے انتہائی شکر گزار ہیں۔‘‘
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صرف اسرائیل ہی میں آج بھی ایک لاکھ پچاس ہزار چھ سو ایسے افراد زندہ ہیں، جو دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کے عینی شاہد ہیں۔ ان میں سے ایک ہزار سے زائد افراد 100 سال سے زائد کی عمروں کے ہیں۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، کے این اے)
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔