1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہڈیاں کھانے والے عجیب کیڑے دریافت

امجد علی19 اگست 2013

سائنسدانوں کے مطابق اُنہوں نے بر اعظم قطب جنوبی کے اردگرد کے پُر اَسرار سمندری پانیوں میں بسنے والی ایک ایسے کیڑے کی دو اَقسام دریافت کی ہیں، جو ہڈیاں بھی ہڑپ کر جاتا ہے۔ ان کیڑوں کو ’اوسیڈیکس ورمز‘ کا نام دیا گیا ہے۔

وہیل کا ڈھانچہ
وہیل کا ڈھانچہتصویر: picture-alliance/dpa

’جرنل پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی‘ میں شائع ہونے والے ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ سمندر کی تہہ میں پڑے ہوئے مردہ وہیل کے ڈھانچے ان کیڑوں کی خوراک بنتے ہیں اور یوں یہ کیڑے ری سائیکلنگ کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کیڑوں کی اِن دو اَقسام کو ’اوسیڈیکس انٹارکٹِکس‘ اور ’اوسیڈیکس ڈیسیپشننسس‘ کے نام دیے گئے ہیں۔ اِنہیں سائنسدانوں کی اُس بین الاقوامی ٹیم نے دریافت کیا، جو یہ پتہ چلانا چاہتی تھی کہ جنوبی سمندروں کی تہہ میں پڑے وہیل کے ڈھانچوں اور بحری جہازوں کی باقیات پر کیا گزرتی ہے۔

یہ کیڑے چند ملی میٹر لمبے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے جسم سے انگلیوں کی طرح کے چار اعضاء باہر کو نکلے ہوتے ہیں، جو ایک مرکزی جسم سے جڑے ہوتے ہیں۔

اِن دو نئی اَقسام کی دریافت سے پہلے ہی سائنسدان اوسیڈیکس کیڑوں کی پانچ قسموں سے واقف ہیں۔ سائنسدان جہاں ایک طرف اپنی اس نئی دریافت پر بہت خوش ہیں، وہاں وہ اس بات پر حیران بھی ہیں کہ اُنہیں ان پانیوں میں لکڑی کھانے والے وہ کیڑے نہیں ملے، جو زائلوفیگینے کہلاتے ہیں اور عام طور پر گہرے سمندروں میں غرق شُدہ لکڑی کی باقیات پر پائے جاتے ہیں۔

’اورکا‘ نامی وہیلتصویر: AP

اس مطالعاتی جائزے کے مصنفین میں شامل لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے ایڈریان گلوور بتاتے ہیں:’’ایک سال کے عرصے کے دوران ہم نے ’ڈِیپ سی لینڈر‘ نامی زیر آب آلے کو سمندر کی تہہ میں رکھا اور پھر اُسے وہاں سے باہر نکالا۔ اس آلے پر وہیل کی بڑی بڑی ہڈیوں کے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختے بھی رکھے گئے تھے۔ جب ہم نے ان ہڈیوں اور لکڑی کا تجزیہ کیا تو ہمیں فوری طور پر یہ معلوم ہو گیا کہ جہاں ہڈیوں پر سرخ رنگ کے ’اوسیڈیکس ورمز‘ کی تہہ جمی ہوئی تھی، وہاں لکڑی کے تختوں کو کسی نے چھُوا تک بھی نہیں تھا اور لکڑی کھانے والے عام کیڑوں کا نشان تک بھی نہیں تھا۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ 14 ماہ تک سمندر کی تہہ میں پڑے رہنے کے باوجود لکڑی بالکل معمولی سی ہی خراب ہوئی تھی۔‘‘

لکڑی کے کیڑوں کی غیر موجودگی کو بحری آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے ایک طرح کی خوش خبری بھی کہا جا سکتا ہے۔ بحیرہ قطب جنوبی بہت سے بحری جہازوں کا قبرستان ہے۔ ان جہازوں میں برطانوی مہم جُو ایرنسٹ شیکلٹن کا صنوبر اور شاہ بلوط کی لکڑی سے تیار کردہ بحری جہاز ’اینڈیورَینس‘ بھی شامل ہے، جو برف کے تودوں تلے کچلا گیا تھا اور 1914ء کی مہم کے دوران سرد پانیوں میں غرق ہو گیا تھا۔

سمندروں کی تہوں کا شمار کرہء ارض کے اُن ماحولیاتی نظاموں میں ہوتا ہے، جنہیں ابھی پوری طرح تک کھنگالا نہیں جا سکا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں