’ہیروز‘: برلن میں مسلمان نوجوانوں کے لئے نیا منصوبہ
17 جون 2010جرمنی میں بسنے والے مسلمان نوجوانوں کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ وہ جرائم پیشہ اور سنگدل ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ نوجوان بُرے نہیں، بدنام زیادہ ہیں۔ ’ہیروز‘ نامی منصوبے کی داغ بیل مسلمان نوجوانوں کے بارے میں پائی جانے والی اِسی عمومی سوچ کو بدلنے کے لئے ڈالی گئی ہے، جہاں خود اِن نوجوانوں کو اپنا موقف واضح کرنے کا موقع ملتا ہے۔
برلن کے نوجوانوں کےبہت سے مراکز میں سے ایک کے سادہ در و دیوار والے ایک بڑے سے ہال میں بیٹھا مسلمان نوجوان احمد منصور دَس نوعمر عرب اور ترک لڑکوں کے ساتھ حقِ خود ارادیت، ماں باپ کی مرضی سے ہونے والی شادیوں اور غیرت کے نام پر قتل جیسے موضوعات پر تبادلہء خیال کر رہا ہے۔ بنیادی طور پر فلسطین سے تعلق رکھنے والا ماہرِ نفسیات احمد منصور بتاتا ہے:’’ہمارا تصور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے، جہاں مرد و زن برابر کے حقوق رکھتے ہوں۔ جب مَیں کسی ورکشاپ میں جاتا ہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ نوعمروں کے سوچنے کا ڈھنگ بڑا کٹر اور روایتی ہوتا ہے۔ ایک عورت کو ہمیشہ ایسا ہونا چاہیئے، ایک مرد کو ہمیشہ ویسا ہونا چاہئے۔ یہ سوچ اُنہیں اپنے باپ دادا سے ملی ہوتی ہے، خود اُنہوں نے کبھی اُس پر غور نہیں کیا ہوتا۔ ہمارے لئے یہی مشکل کام ہے کہ ہمیں صدیوں سے چلی آ رہی روایات کے خلاف لڑنا پڑتا ہے۔ تین گھنٹوں کی کسی ورکشاپ میں اِس سوچ کو بدلنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم اتنا کر سکتے ہیں کہ اِن نوعمروں کو ایک مخصوص سمت میں سوچنے کی تحریک دیں۔‘‘
’ہیروز‘ نامی اِس منصوبے کی ابتدا دراصل سویڈن میں ہوئی۔ 2007ء میں ایک جرمن ماہرِ عمرانیات اِسے جرمنی لائے۔ تب سے ترکِ وطن کا پس منظر رکھنے والے نوجوان لڑکوں کو اِس منصوبے کے تحت تربیت دی جاتی ہے۔ احمد منصور جیسے ماہرینِ نفسیات اِن لڑکوں میں ممنوعہ سمجھے جانے والے ثقافتی موضوعات کے بارے میں شعور اُجاگر کرتے ہیں اور اُنہیں سکھاتے ہیں کہ تنازعے اور محاذ آرائی کی شدت کیسے کم کی جا سکتی ہے۔ پھر اُمید کی جاتی ہے کہ یہی لڑکے یہ پیغام آگے اپنے جیسے دوسرے لڑکوں تک بھی پہنچائیں گے۔
یہاں اِن لڑکوں کو نصیحتیں نہیں کی جاتیں بلکہ عملی مظاہرہ کر کے سمجھایا جاتا ہے کہ کسی مخصوص صورتِ حال میں کیا طرزِ عمل اختیار کیا جانا چاہئے۔ مثلاً ایک منظر میں ایک اُنیس سالہ ترک نژاد لڑکا اُفُق آکار دیگر لڑکوں کے عین وَسط میں بیٹھا ڈرامائی انداز میں ایک باپ اور بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سنا رہا ہے۔ باپ اپنے بیٹے کو بتا رہا ہے کہ کیسے اُسے اپنی بہن کا خیال رکھنا چاہئے۔
یہ سب ایسے مکالمے ہوتے ہیں، جو یہاں جمع چند ایک لڑکے اپنے عرب اور ترک کنبوں میں اکثر سن بھی چکے ہوتے ہیں۔ اِن میں سے بہت سے لڑکے یہ نہیں چاہتے کہ اُنہیں خواہ مخواہ بُرے اور غصیلے بھائی کا خطاب دے دیا جائے یا اُنہیں خاندانی روایات اور بہن بھائیوں کی محبت میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہونا پڑے۔
جرمنی میں آباد روایتی گھرانوں کے مسلمان لڑکے اِس دباؤ کا شکار رہتے ہیں کہ کہیں اُن کا خاندان اُنہیں ایک مخصوص رویہ اختیار نہ کرنے کی بناء پر نا اہل اور نکما قرار نہ دے دے۔ ’ہیروز‘ نامی منصوبے میں اُن پر پڑنے والے اِس دباؤ کو کم کرنے اور اُنہیں متبادل راہیں دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تھئیٹر کی تعلیم دینے والے اُستاد یِلماز اَتماچا بتاتے ہیں کہ ہر لڑکے کو بار بار کبھی ماں کا اور کبھی بہن کا رُوپ اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اُن کے مسائل کا ادراک کر سکیں:’’ان نوجوانوں کو پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کا کردار وہ ادا کر رہے ہیں، وہ کسی مخصوص صورتِ حال میں کیا کچھ محسوس کرتا ہے۔ اُنہیں اُس کردار کے ساتھ ہمدردی محسوس ہونے لگتی ہے اور وہ جان جاتے ہیں کہ اُن کی ماؤں اور بہنوں کی زندگیوں کا دائرہء کار کتنا محدود ہوتا ہے۔‘‘
بہت سے نوجوان ذہنوں میں مذہب کے بارے میں کم علمی اور روایات پر یقین ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ ’ہیروز‘ نامی منصوبے کا ایک اور مقصد اِس اُلجھن کو بھی سلجھانا ہے۔ کئی نوجوان اسلام کا نام لے کر اپنے طرز عمل کا جواز فراہم کرتے ہیں حالانکہ اُن میں سے اکثر نے کبھی قرآن کا مفصل مطالعہ نہیں کیا ہوتا۔ یہاں ہونے والی بحثوں میں قرآن کی سورتوں کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اسلام میں جبر و استحصال کے مقابلے میں انفرادی آزادی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک