1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخعالمی

ہیرو ورشپ کا رواج کیوں قائم ہے؟

13 اکتوبر 2024

پسماندہ معاشرے میں ہیرو ورشپ اِس لیے کی جاتی ہے کہ اس کے دانشور اور راہنما اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ وہ معاشرے کے مسائل کو حل کر سکیں۔ وہاں ہیرو ورشپ کے ذریعے قوم کی راہنمائی کی کوشش کی جاتا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر۔

تصویر: privat

ترقی یافتہ معاشرے میں ہیروز کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ اُس کے ریاستی ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ ہیروز آتے جاتے رہتے ہیں اور ادارے اپنی جگہ قائم رہتے ہوئے معاشرے کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اس کی مثال برطانیہ کے وزیرِاعظم چرچل کی ہے۔ جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کی راہنمائی کی۔ مگر جنگ کے خاتمے کے بعد اہلِ برطانیہ نے یہ نہیں کیا کہ اُن کو تاحیات وزیرِاعظم مُنتخب کیا بلکہ انتخاب میں اُسے ہَرا کر یہ ثابت کر دیا کہ اب اُنہیں جنگی وزیرِاعظم کی ضرورت نہیں ہے اور وہ برطانوی سلطنت کو ختم کر کے فلاحی معاشرہ چاہتے ہیں۔

عروج و زوال اور پروگریس

تاریخ میں اس کے برعکس کبھی قوم پرستی، مَذہبی جذبات اور ایمپیریل ازم کی خواہشات کے تحت ہیروز کو مُقدّس بنا کر اُن کی شخصیت کو افضل اور برتر قرار دیا جاتا ہے اور ان شخصیتوں کے جرائم کو بھی معاف کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اسکندر کی ہے جس نے اپنے ذاتی عزائم کے لیے ایران، مِصر، بابُل اور ہندوستان پر حملے کیے۔ اپنی فتوحات کے لیے ہر جنگ میں ہزاروں لوگوں کا قتلِ عام کیا۔ اس قتلِ عام میں فوجی اور شہری دونوں شامل تھے۔ اِن جرائم کے باوجود اُسے 'گریٹ‘  یا عظیم بنا دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اُن قوموں نے بھی اُسے عظیم قرار دیا جنہوں نے شکست کھائی تھی اور اُس کی فوجوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اُس کے قدیم ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔ پاکستان میں جہلم کے قریب جہاں اُس نے پورَس کو شِکست دی تھی اُس کی فتح کی یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ اس طرح ہم اُس کے قتل و غارت گری کے عمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔

کرپشن اور کولونیئلزم

 جولیس سیزر کو جب بروٹس اور اُس کے ساتھیوں نے قتل کیا تو اُسے نہ صرف ہیرو قرار دیا گیا بلکہ دیوتا کا درجہ دے کر آسمان کا ستارہ بنا دیا گیا۔ پھر اُس کے نام پر جولین فیملی نے بادشاہت کے ساتھ نیرو تک حُکومت کی۔ جب سیزر کے دوسرے جانشین ٹائبیریس کی حکومت آئی تو ایک مؤرخ نے سیزر کی بجائے بروٹس اور اس کے ساتھیوں کو ہیرو قرار دیا، جنہوں نے رومی جمہویہ کی خاطر سیزر کو قتل کیا تھا۔ اس پر رومی سینٹ نے مؤرخ کی تمام کتابوں کو جلا دینے کا حکم دیا تا کہ سیزر بحیثیت ہیرو کے زندہ رہے۔

انگلستان کے مؤرخ کارلائل (d.1881) نے ہیرو ورشپ پر ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں خاص طور سے ہم دو ہیروز کا تذکرہ کریں گے۔ جن کے بارے میں کارلائل نے تعریف اور توصیف کی ہے۔ اِن میں سے ایک (d.1658) Cromwell تھا جو برٹش (British) پارلیمنٹ کا رُکن تھا۔ اس نے نہ صرف انگلستان کے بادشاہ چارلس (اوّل) کو شکست دے کر موت کی سزا دِلوائی بلکہ آئرلینڈ میں جا کر آئریش (Irish) لوگوں کی بغاوت کو کچل کر اُن کا قتلِ عام کیا۔ اپنے اقتدار کی خاطر اُس نے پارلیمینٹ کا کوئی اجلاس بھی نہ ہونے دیا۔ Carlyle کی کتاب کے بعد یہ ہیرو بن کر اُبھرا اور اب اِس کا مجسمہ پارلیمنٹ کے احاطے میں کھڑا ہے۔

کسی بھی شخصیت کو ہیرو بنانے کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس کی شخصیت میں اہم خصوصیات ہیں جسے جرمن ماہر عمرانیات Max Weber (d. 1920) (Charismatic)  کہتے ہیں۔ اب تیسری دنیا کے عوام اپنے ہیروز میں یہ خصوصیات پا کر اُن کے پیروکار ہو جاتے ہیں اور اُن کی شخصیت کا ناقدانہ تجزیہ نہیں کر پاتے۔

انسانی جذبات کا سیاسی اور سماجی حالات پر اثر

جب کسی سوسائٹی میں کوئی شخصیت ہیرو بن جاتی ہے تو دوسری قومیں بھی اُس کی تقلید کرنا چاہتی ہیں۔ مثلاً جب مصطفےٰ کمال نے ترکی کی ریاست کو جدید ریاست بنایا تو اُسی سے مسلم ممالک کے کئی راہنما مُتاثر ہوئے اور انہوں نے بھی یہ کوشش کی کہ اُس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے مُلکوں کو بھی جدید بنائیں۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی اور افغانستان میں اَمیر حبیب اللہ نے مصطفےٰ کمال کی تقلید کرتے ہوئے اپنے مُلکوں میں اصلاحات کرنا چاہیں۔ مگر وہ اس لیے ناکام رہے کیونکہ نہ تو اِن میں مصطفےٰ کمال جیسی صلاحیت تھی اور نہ اہلیت۔

پاکستان میں ماضی کے ہیروز کو استعمال کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی آمر اقتدار میں آتا ہے تو اُسے فوراً صلاح الدّین ایّوبی یا محمود غزنوی بنا دیا جاتا ہے تا کہ اُس کا اصل رُوپ ماضی کے ہیروز میں ڈھل جائے اور قوم اُن سے اُن ہی کارناموں کی اُمید کرے جو تاریخ میں اُن کے ہیروز کر چکے ہیں۔

پاکستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں نام نہاد ہیروز کے خاندان اپنے مُفادات کے لیے اُنہیں استعمال کرتے ہیں۔ یہ عمل ایسا ہی ہے جیسا صوفیا کے سجادہ نشین اپنے امتیاز کو قائم رکھتے ہوئے خود کو برتر سمجھتے ہیں۔

قومی کلچر کی تشکیل

ہیرو ورشپ کا جادو اُسی وقت ٹوٹے گا جب معاشرے میں تعلیم آئے گی۔ دانشور اور مُفکّرین نئے خیالات اور اَفکار پیدا کریں گے اور اس سے نجات پائیں گے کہ ماضی کے ہیرو اور اُن کے افکار، جو فرسودہ ہو چکے ہیں وہ کبھی بھی راہنمائی کے قابل نہیں ہو سکتے۔ ماضی کبھی بھی واپس نہیں آتا ہے۔ حال کو ماضی سے وابسطہ رکھنے کی بجائے مُستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے اور اُن نظریات و اَفکار کی تقلید کرنا چاہیے جو جدید دنیا کی ضرورتوں کو پورا کریں۔ ہیرو ورشپ لوگوں کو اپنے سائے میں لے کر اُن کے اعتماد اور آزادی کو ختم کر دیتی ہے۔ ہیروز گزری ہوئی تاریخ کا حصّہ ہوتے ہیں اُنہیں یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ زندہ لوگوں پر حُکومت کریں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں