یمنی دارالحکومت کی اتھارٹی نے ہیضے کی وباء کے نتیجے میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔ حوثی باغی سن دو ہزار پندرہ سے یمن کے اس اہم شہر پر قابض ہیں جبکہ سعودی عسکری اتحاد صنعاء کی بازیابی کی خاطر فوجی کارروائی میں مصروف ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے صنعاء میں حوثی باغیوں کے وزیر صحت کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہیضے کے کیسز میں انتہائی تیزی سے اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے جبکہ انتظامیہ اس وباء سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
حوثی وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں اس صورتحال سے خبردار کرتے ہوئے عالمی برداری سے مدد کی اپیل بھی کی گئی ہے۔ باغیوں نے ہیضے کی وباء کو ایک بحرانی صورتحال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری ایکشن ناگزیر ہو چکا ہے۔
حوثی باغیوں کے وزیر صحت حافظ بن سلیم محمد نے کہا ہے کہ صنعاء میں ہیضے کی وباء کی تباہی کا پیمانہ شدید ہے اور ان کی انتظامیہ اس بحران سے اکیلے نہیں نمٹ سکتی ہے۔ حوثی باغیوں کے ایک ٹیلی وژن چینل پر انہوں نے کہا کہ اس وباء کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے عالمی برداری کو اپنی ذمہ داری نبھانا چاہیے۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
9 تصاویر1 | 9
بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس نے اتوار کے دن بتایا تھا کہ ستائیس اپریل سے اب تک صنعاء میں ہیضے کی وباء کی وجہ سے 115 افراد ہلاک جبکہ تقریبا ساڑھے آٹھ ہزار بیمار ہو چکے ہیں۔
یمن میں فعال بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھیں کیونکہ یمن میں ہیضے کی وباء شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے بھی خبردار کیا ہے کہ یمن میں طبی ادارے اس وباء سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتے، اس لیے عالمی اداروں کو زیادہ کردار ادا کرنا پڑے گا۔
یمن میں سن دو ہزار پندرہ سے خانہ جنگی جاری ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران حوثی باغیوں کی کارروائیوں اور سعودی عسکری کارروائی کے نتیجے میں اس عرب ملک میں آٹھ ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ملک میں پانچ لاکھ سے زائد بچے کم خوراکی کا شکار ہیں جبکہ یہ ملک قحط کے دہانے پر آن پہنچا ہے۔
اس بحران کی وجہ سے یمن میں بنیادی شہری ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ امدادی اداروں کے مطابق اس خانہ جنگی کے بعد کئی شہروں میں طبی مرکز، اسکول اور دیگر کئی حکومتی ادارے بھی غیر فعال ہو چکے ہیں۔