امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ایک ہیلی کاپٹر مریخ پر بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد مریخ کے کرہ ہوائی کے اعتبار سے بھاری ’اڑنے والی مشینوں‘ کی جانچ ہے۔
اشتہار
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سن 2020 میں جب مریخ پر ایک اور ’روور‘ یا گاڑی بھیجی جائی گی، تو اس کی نچلی تہہ سے ایک ہیلی کاپٹر بھی چپکا دیا جائے گا، جو مریخ پر اس ’روور‘ سے علیحدہ ہو جائے گا اور پھر اسے اڑایا جائے گا۔ ناسا کے مطابق اس ہیلی کاپٹر کو مریخ کے ماحول میں اڑنے کے لیے تیار کیا جائے گا جب کہ یہ شمسی توانائی سے چارج ہوا کرے گا اور اسی توانائی کو شدید سردی میں اپنا درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے بھی استعمال کرے گا۔
کیا آپ مریخ پر جانے کے لیے تیار ہیں؟
عمان کے ایک صحرائی علاقے میں آسٹریا کا مشن مریخ جیسے حالات پیدا کر کے تین ہفتے کا مشن شروع کر چکا ہے۔ یہ عمل سپیس ایکس راکٹ جیسا دلچسپ نہ سہی، مگر امید کی جا رہی ہے کہ اس کے نتیجے میں متعدد اہم سوالات حل ہو سکیں گے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
نفسیاتی حدود کو چھونا
چھ رضاکار ’خلانوردُ اس تین ہفتے کے مشن میں شامل ہیں۔ جنوبی عمان کے ایک لق دق صحرا میں یہ افراد مریخ پر زندگی کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں گے۔ اس مشن کا ایک بنیادی مقصد تنہائی میں انسانی نفسیات پر پڑنے والے دباؤ کا جائزہ لینا ہے۔ دو سائنس دانوں کے ذمے جیوریڈار کے ذریعے دشت بھر کا نقشہ تیار کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/dpa/S. Mcneil
نئے خلائی لباس کا تجزیہ
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے فلائٹ کنٹرولر ژواؤ لوزادا آؤدا نامی نئے خلائی لباس کی جانچ کر رہے ہیں۔ یہ لباس پچاس کلو وزنی ہے اور پہننے میں کئی گھنٹے لگتے ہیں۔ مگر جب یہ پہن لیا جائے، تو سانس، خوراک، کمیونیکشن اور کام میں بے حد مدد کرتا ہے۔ ہیلمٹ میں نصف یہ نیلا فوم ناک اور منہ صاف کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Mcneil
’’دشت میں اگلوز‘‘
اس مشن میں شامل چھ افراد اگلے تین ماہ اس ڈھائی ٹن وزنی بڑے سے گھر میں گزاریں گے۔ اس اڈے کو مریخ کی چٹانی اور ریتلی سطح کو سامنے رکھ کر تعمیر کیا گیا ہے۔ عمان کے اس علاقے میں درجہ حرارت 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Mcneil
دنیا بھر کے لیے تجربات
خصوصی گاڑیوں کا استعمال کر کے یہ سائنس دان دنیا بھر کے سائنس دانوں کے لیے 16 مختلف تجربات کریں گے۔ ان میں روبوٹ گاڑی کا استعمال، گرین ہاؤس حالات کا استعمال کر کے پودے اگانا اور تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے مختلف مشینوں کے لیے اضافی پرزے تیار کرنا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Mcneil
مل جل کے کام
آسٹرین اسپیس فورم کی زیرنگرانی مریخ جیسے حالات پیدا کر کے انجام دیا جانے والا مشن دنیا کے 20 مختلف ممالک کی مدد سے چل رہا ہے۔ اس مشن کا مرکزی نکتہ ہے، ’’ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ ہم اپنے سیارے اور اپنے نظام شمسی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں ذمہ داری اور اخلاقی قدروں کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہے۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ اس ہیلی کاپٹر کا وزن دو کلوگرام سے بھی کم ہے اور حجم میں بیس بال کی ایک گیند کے برابر ہو گا۔ ناسا کے مطابق اس ہیلی کاپٹر کے پنکھے زمین پر اڑنے والے ہیلی کاپٹر سے دس گنا تیز چلیں گے، جس کی وجہ مریخ کی انتہائی لطیف ہوا ہے۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ زمین اور مریخ کا کل درمیانی فاصلہ قریب 55 ملین کلومیٹر (ساڑھے پانچ کروڑ کلومیٹر) ہے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ زمین پر موجود سائنس دان اس ہیلی کاپٹر کو اڑاتے ہوئے روشنی کی رفتار سے بھیجے جانے والے سنگلز کے باوجود اسی حقیقی وقت میں کنٹرول نہیں کر پائیں گے، یعنی انہیں اس ہیلی کاپٹر کو اڑاتے ہوئے اس فاصلے اور پیغامات کی رفتار کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔
ناسا کے مطابق اسی صورت حال کی وجہ سے اس ہیلی کاپٹر کو خودکار انداز سے اڑنے کی صلاحیت کا حامل بنایا جائے گا۔ زمین سے اس ہیلی کاپٹر کو بھیجے جانے والے سنگلز کو یہ ہیلی کاپٹر خود سمجھے گا اور اس کے مطابق اپنا مشن ترتیب دے کر خود ہی اڑنے لگے گا۔
زمین پر ہی مریخ کے دورے
مریخ پر جانے کے لیے پرعزم سائنسدانوں کا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ان کی پہلی منزل زمین ہی ہو گی۔
تصویر: R. Dückerhoff
شاندار نظارہ
ہوائی کے جزیرے پر آتش فشاں ماؤنا لوآ کی سنگلاخ چٹانوں پر مریخ کا ایک ’مصنوعی تجرباتی سفر‘ کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ اٹھائیس اگست سے شروع ہونے والے اس غیر حقیقی سفر میں ایک سال کے دوران چھ مختلف افراد تجربات کریں گے۔ یہ سائنسدان ایک ایسے گنبد نما خیمے میں رہیں گے، جس کے ارد گرد پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
تصویر: R. Dückerhoff
مریخ پر قیام
اس مصنوعی مشن HI-SEAS 4 میں جرمن خاتون سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کی مالی معاونت سے تیار کردہ اس مشن میں متعدد خلا باز مختلف قسم کی سرگرمیاں مکمل کریں گے۔ اس مشن کا مقصد یہ جاننا ہے کہ مستقبل میں مریخ پر جانے والے خلا بازوں کے مشترکہ مسائل کی وجہ سے ان کا مشن کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آرام دہ رہائش
پانچ امریکی اور یورپی سائنسدانوں کے ہمراہ جرمن سائنسدان کرسٹیانے ہائینِکے بھی اس خیمے میں وقت گزاریں گی۔ اس آرام دہ رہائش گاہ کا قطر گیارہ میٹر ہے۔ ہفتے میں دو مرتبہ یہ سائنسدان اپنا خلائی لباس پہن کر مصنوعی حالات میں اپنے خیمے سے باہر نکل کر تجربات کریں گے۔ باقی تمام وقت یہ اسی خیمے میں ہی گزاریں گے۔ یہ باہر کی دنیا سے صرف ریکارڈ شدہ پیغامات اور ای میل کے ذریعے ہی رابطہ کر سکیں گے۔
تصویر: R. Dückerhoff
سرخ سیارہ، بے جان سیارہ
ہوائی یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق آتش فشاں ماؤنا لوآ مریخ کے اس خیالی مشن کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ ان دونوں مقامات پر نباتات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنگلی حیات بھی موجود نہیں اور آپ کہیں پانی بھی نہیں دیکھ سکتے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
خطرناک سفر
حقیقی مشن کے دوران سرخ سیارے پر پہنچنے کے لیے ہی آٹھ ماہ درکار ہوں گے۔ سائنسدان ایسے کسی مشن سے پہلے بھرپور تیاری کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ طویل سفر خلا بازوں پر کس طرح کے ممکنہ اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ خلا باز تنہائی کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ کوئی باہمی تنازعہ پیدا ہوا تو کیا کریں گے؟ سائنسدانوں کو تحفظات کا سامنا ہے کہ اس طویل مشن سے خلا بازوں میں ڈپریشن اور سستی بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: imago/United Archives
مریخ 500
’مارس 500‘ نامی ایک اسٹڈی ماسکو میں کی گئی تھی۔ 2010ء اور 2011ء کے دوران کیے گئے اس مطالعے میں بھی مریخ کا ایک مصنوعی مشن مکمل کیا گیا تھا۔ 520 دنوں کے اس طویل مشن میں مریخ سے واپسی کی تصوراتی پرواز بھی شامل تھی۔ خلا بازوں کی تنہائی کے حوالے سے یہ طویل ترین مطالعہ تھا۔ نتائج کے مطابق چند خلا باز مصنوعی حالات کی وجہ سے کچھ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ESA
اونچے گلیشیئر پر
گلیشیئر پر مصنوعی تجرباتی مریخ مشن Amadee-15 کے دوران نتائج کچھ مختلف رہے۔ اس مشن کے دوران خلا بازوں نے آسٹریا میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں انتہائی اونچائی پر واقع برفانی تودوں میں وقت گزارا۔ دو ہفتے طویل اس مصنوعی مشن کو موسم سرما میں مکمل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Röder
صحرا میں
خلائی امور کے حوالے سے آگاہی کے منصوبے چلانے والی ’مارس سوسائٹی‘ نامی غیر سرکاری تنظیم نے تجربات کے لیے تین سینٹرز بنائے ہیں۔ ان میں سے ایک صحرائی تحقیقی مرکز امریکا کی ریاست یُوٹاہ کے صحرائی علاقوں میں بھی بنایا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک چوتھا سینٹر آسٹریلیا کے شمالی ایڈیلڈ علاقے میں قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Frey
دنیا کا سب سے الگ تھلگ علاقہ
مریخ کو بے جان، سرد اور انتہائی الگ تھلگ سیارہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی خصوصیات انٹارکٹیکا کی بھی ہیں۔ اسی لیے مریخ کے سفر کی تیاریوں کے سلسلے میں اس براعظم پر بھی ایک سینٹر بنایا گیا ہے۔ وہاں زندگی انتہائی مشکل ہے، بالخصوص تاریخ موسم سرما کے دوران۔ سائنسدان وہاں قائم تجربہ گاہ میں خلا بازوں پر تنہائی کے اثرات کے علاوہ نفسیاتی دباؤ کی کیفیت اور نیند کے اوقات میں خلل کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی انسان نہ تو مریخ پر رہ سکتا ہے اور نہ ہی پانی میں۔ اسی لیے سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائیوں میں بھی تجربہ گاہیں قائم کی ہیں، جہاں نہ روشنی ہے اور نہ ہی ہوا۔ ناسا نے فلوریڈا میں کی لارگو نامی جزیرے سے منسلک پانیوں میں 62 فٹ کی گہرائی میں ایک تجرباتی اسٹیشن قائم کیا ہے۔ وہاں تین ہفتوں کے لیے مختلف افراد کو بھیجا جاتا ہے اور ان پر مصنوعی ماحول کا اثر جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ہر شے کا تجربہ ضروری
مریخ کے سفر پر تجربات کے علاوہ محققین یہ جاننے کی کوشش میں بھی ہیں کہ اس سرخ سیارے پر قیام کے دوران انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جرمن ایئر سپیس سینٹر میں Envihab نامی ایک ایسی طبی تجربہ گاہ بھی بنائی گئی ہے جہاں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی دوسرے سیارے کا ماحول انسان پر کیا کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/F. Schmidt
خوراک کا انتظام
مریخ پر کاشت کاری ممکن نہیں ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان اس بے جان سیارے پر طویل قیام کرتے ہیں تو وہ کیا کھائیں گے؟ Envihab میں سرگرم سائنسدان اپنے تجربات میں یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ایسا کون سا پودا ہے، جو گلاس کے مرتبان میں نشو ونما پا سکتا ہے، تاکہ مریخ پر قیام کرنے والوں کو تازہ خوراک فراہم ہو سکے۔
تصویر: DW/F.Schmidt
مریخ پر جانے کی بے قراری
ترقی یافتہ ممالک مریخ مشن کو عملی جامہ پہننانے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ شاید 2030ء یا 2035ء تک مریخ پر جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم فی الحال انسانوں کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے زمین پر ہی تجربات جاری رکھنا ہوں گے۔
تصویر: Reuters/S. Audette
13 تصاویر1 | 13
ناسا کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ ’ہائی رسک، ہائی ریوارڈ‘ یعنی ’بڑا خطرہ اور بڑا ثمر‘ کے مترادف ہے۔ ناسا کا کہنا ہے کہ اگر یہ ہیلی کاپٹر مریخ مشن 2020 میں اس طرح کامیاب نہ ہوا، جیسا سوچا گیا ہے، تو اس سے مشن کو بہ حیثیت مجموعی کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن اگر یہ مشن کامیاب رہا، تو مستقبل میں کم بلندی پر اڑنے والی مشینیں مریخ پر بھیجی جائیں گی، تاکہ اس سیارے پر وہ فاصلے بھی طے کیے جا سکیں، جو سطح پر سفر کرتے ہوئے طے کرنا ممکن نہیں ہے۔
ناسا جولائی سن 2020 میں مریخ کے لیے اپنا نیا ’روور‘ مشن کیپ کنیورل سے روانہ کرے گا، جب کہ یہ مشن فروری 2021 میں مریخ تک پہنچے گا۔