ہیمبرگ: پالتو جانوروں کی راکھ مالکان کی قبروں میں رکھنا ممکن
24 اکتوبر 2019
شمالی جرمنی کی شہری ریاست ہیمبرگ کی حکومت نے پالتو جانوروں اور ان کے مالکان کے بارے میں ایک نئی اور منفرد قانون سازی کی ہے۔ اب بعد از مرگ ایسے پالتو جانوروں کی راکھ ان کے مالکان کے ساتھ دفنائی جا سکے گی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Blickwinkel
اشتہار
ہیمبرگ سے جمعرات چوبیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس جرمن صوبے کی پارلیمان نے بدھ تیئیس اکتوبر کو رات گئے ایک ایسے ابتدائی قانون کی منظوری دے دی، جو ہیمبرگ کے اپنے پالتو جانوروں سے بہت زیادہ پیار کرنے اور مذہبی روایات پر سختی سے عمل نہ کرنے والے شہریوں کے لیے خوشی کا باعث ہو گی۔
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔
تصویر: Imago/W. Otto
7 تصاویر1 | 7
اس قانونی مسودے کے مطابق اگلے سال سے یہ ممکن ہو جائے گا کہ انتقال کر جانے والے کسی شہری کی طرف سے قبل از موت کی گئی کسی درخواست یا قانونی وصیت کے نتیجے میں اس کے کسی پالتو جانور کی راکھ والا راکھ دان اس متعلقہ شہری کی قبر میں رکھا جا سکے گا۔
'پالتو جانور بھی خاندان کے ارکان‘
اس سٹی اسٹیٹ کی پارلیمان کے کل رات ہونے والے ایک اجلاس کے موقع پر ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کی ماحولیاتی امور کی خاتون ترجمان اُلریکے شپیئر نے بتایا، ''آج کے معاشرے میں بہت سے شہریوں کا اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ بہت گہرا جذباتی تعلق ہوتا ہے اور وہ ان گھریلو جانور کو اپنے خاندان ہی کے ارکان سمجھتے ہیں۔‘‘
اُلریکے شپیئر نے کہا، ''اس لیے دیکھا جائے تو یہ بات کسی گھرانے کے افراد کی مشترکہ تدفین جیسی ہی بات ہے۔‘‘
ساتھ ہی ہیمبرگ میں گرین پارٹی نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اس شمالی جرمن شہر کے قبرستانوں میں آئندہ ایسی مشترکہ 'انسانی اور حیوانی‘ قبروں کے لیے مخصوص حصے قائم کر دیے جائیں تاکہ ان شہریوں کو کوئی ذہنی یا جذباتی تکلیف نہ ہو جو اس نئے سرکاری فیصلے کے حامی نہیں ہیں۔
ماحول دوست تدفین رواج پکڑتی ہوئی
جرمنی میں آخری رسومات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تحفظِ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔ اب ایسے تابوت تیار کیے جا رہے ہیں، جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر فوری طور پر قدرتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تصویر: ARKA Ecopod
بید سے بنا تابوت
جسے روایتی تابوت کی بناوٹ پسند نہ ہو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی لیے بید سے بُنے تابوت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس تابوت کی بُنائی کا کھلنا آسان ہوتا ہے اور اس کے اندر لگے کپڑے کو الگ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بید کا درخت بہت تیزی سے بھی بڑھتا ہے۔ اس انداز میں تدفین کے خواہش مند افراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی ماحول دوست ہی رہے۔
تصویر: Passages International, Inc.
کفن
ہزاروں سالوں سے مردوں کو کپڑے میں لپیٹ کر دفنانے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ یورپ میں ابھی تک لوگ مردوں کو دفنانے کا یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تدفین کا یہ انداز کم خرچ ہے، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کفن کے کپڑے کی قیمت ایک ہزار ڈالر تک بھی ہوتی ہے۔
تصویر: Gordon Tulley, Respect Funeral Services
اخباری کاغذ سے تیار کردہ تابوت
یہ بات بالکل بھی دلفریب نہیں لگتی کہ کوئی شخص اپنا آخری سفر اخبار کے دوبارہ کارآمد بنائے گئے صفحات میں طے کرے۔ اب اخبارات کے صفحات کو بھی خوبصورت تابوتوں کی شکل دی جانے لگی ہے۔ اگر کسی کو یہ ناپسند ہوں تو تابوت سونے کا بھی بنوایا جا سکتا ہے۔ آخر کار مرتا تو انسان صرف ایک ہی بار ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
کم وزن اور ہلکا پھلکا
اخبارات کے صفحات سے بنائے گئے تابوتوں کا وزن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دفنانے کے بعد یہ بہت جلد ہی مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں، جو قبرستان کے قدرتی ماحول کے لیے بہت ہی سازگار ہوتا ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
اخبار سے بنایا گیا مصری راکھ دان
اخبارات سے تیار کردہ راکھ دان بھی اُسی کمپنی کی اختراع ہیں، جس نے اخباری کاغذ سے بنائے گئے تابوت متعارف کرائے ہیں۔ ڈیزائنر ہَیزل سیلینا کا کہنا ہے کہ قدیم مصر میں تجہیز و تکفین کی رسومات نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اخبارات سے راکھ دان بنانے کا خیال بھی اُن کے ذہن میں اِنہی مصری روایات کی وجہ سے آیا۔
تصویر: ARKA Ecopod
درخت کی طرح کا راکھ دان
مختلف شکلوں کے راکھ دان بنانے والی مختلف کمپنیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے برتن بھی بنائے ہیں، جن میں کھاد اور بیج بھی موجود ہوتے ہیں۔ سِرامک کا بنا اِس برتن کا ڈھکن اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے، جب پودہ زمین سے اُبھرنا شروع کرتا ہے۔
تصویر: Spíritree
زیرِ آب راکھ دان
اپنی راکھ کے سمندر برُد کیے جانے کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے کاغذ سے بنا ہوا یہ خصوصی برتن تیار کیا گیا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین اِس برتن پر نقش و نگار بھی بنا سکتے ہیں اور اپنے آخری پیغامات بھی اِس میں ڈال سکتے ہیں۔
تصویر: Passages International, Inc.
انسانی درخت
اس تھیلے میں لاش کو بالکل اُسی طرح سے رکھا جاتا ہے، جس طرح بچہ ماہ کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ یہ تصور ایک اطالوی ڈیزائنر نے پیش کیا۔ اس میں لاش ایک درخت کی غذا بنتی ہے۔ اطالوی حکومت نے ابھی تک مُردوں کو اس طرح سے ’دفنانے‘ کی اجازت نہیں دی اور اسے ’مستقبل کا ڈیزائن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Capsula Mundi
8 تصاویر1 | 8
نیا قانون صرف کتوں اور بلیوں تک محدود
جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر کے مطابق شروع میں اس نئے قانون کا اطلاق صرف گھروں میں پالتو جانوروں کے طور پر پالے گئے کتوں اور بلیوں پر ہو گا۔ اب تک مروجہ قانون کے مطابق ہیمبرگ کے شہریوں کو یہ اجازت ہے کہ وہ اپنے انتقال کرنے والے پالتو جانوروں کو اگر چاہیں تو اپنے گھروں کے پچھلے باغیچوں میں دفن کر سکتے ہیں۔
آخری آرام گاہ: جرمنی میں تدفین کی روایات
جرمنی میں کفن دفن کے حوالے سے سخت روایت ہیں اور اُن پر کاربند رہنا لازمی بھی خیال کیا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے اس فوٹو گیلری میں مختلف روایات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
تصویر: Museum für Sepulkralkultur Kassel
آخری آرام گاہ
جرمن دفتر شماریات کے مطابق سن 2016 میں نو لاکھ سے زائد کی اموات ہوئی تھی۔ جرمنی میں قریب سبھی شہروں اور قصبوں میں قبرستان موجود ہیں۔ دوسری جانب تدفین کے طریقوں میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ اس میں خاص طور پر قبرستان میں روایتی ہریالی والی جگہوں سے اجتناب کیا جانے لگا ہے۔
تصویر: Imago/W. Otto
تدفین کے روایتی طریقے
کفن دفن مہنگا ہوتا جا رہا ہے اور اس باعث قبرستانوں میں مخصوص خاندانی جگہوں پر سرمایہ کاری میں کمی ہو چکی ہے۔ جرمن شہروں کے رہائشی کم خرچ تدفین کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ اس میں بھی تابوت یا جلائے گئے مردے کی راکھ کے لیے مخصوص برتن ضروری ہے۔ مردے کو نذر آتش کرنے کے بعد راکھ سربمہر برتن میں محفوظ کر کے کسی قبرستان میں دفن کرنا بھی اہم ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
بعد از موت
جرمنی میں جلائے گئے مردے کی راکھ رکھنے کے لیے خوبصورت نقش و نگار سے مزین اور وقت کے ساتھ مٹی میں شامل ہونے والے خاص برتن بھی اب اہم ہو چکے ہے۔ شہروں میں مردہ جلانے کی روایت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ سن 2015 میں جرمن ریاست بریمن نے بعد از موت تدفین کے ضابطوں میں نرمی پیدا کی اور اس کے تحت اہل خانہ اپنے جلائے ہوئے مردے کی راکھ اپنے مکان کے عقبی باغیچے میں پھیلا سکتے ہیں۔
تصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/picture-alliance/dpa
اپنی جڑوں کی جانب واپسی
جرمنی میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ مردے کی راکھ بتدریج مٹی میں شامل ہونے والے برتن میں رکھ کر کسی درخت کی جڑوں میں دفن کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے جنگل میں مخصوص علاقے مختص ہیں۔ ایسی تدفین کے لیے کوئی نگران مقرر نہیں کیا جاتا۔ جنگل میں خاکدان رکھنے کے مقام پرشمعیں جلانا اور پھول رکھنے کی ممانعت ہے۔ یہ کھلا مقام قدرتی اور پرسکون محسوس خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Arno Burgi/picture-alliance/dpa
تابوت سازی
جرمنی میں تابوت سازی کے لیے مخصوص ورکشاپ قائم ہیں۔ اس تصویر میں لاعلاج مریضوں کے مرکز کی انچارج لیڈیا رؤڈر کے ساتھ تابوت پر نقش و نگار کی آرٹسٹ آنا ایڈم کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھ سے تابوت تیار کرتی ہیں۔ اس کی قیمت چند سو یورو ہے جو مارکیٹ میں دستیاب تابوت کی قیمت سے بہت کم ہے۔ جرمن مارکیٹ میں تابوت کی قیمتیں ایک ہزار یورو سے شروع ہوتی ہیں۔
تصویر: Christian Lohse
تدفین سے قبل رحلت پانے والے کا دیدار
یورپ میں رحلت پانے والے خاندان کے لوگ انتہائی قریبی احباب کے لیے تابوت کو دفن کرنے سے قبل کھولتے ہیں اور چہرے کا دیدار کرتے ہیں۔ یہ کئی یورپی ممالک میں مقبول ہے لیکن جرمنی میں اس کی روایت قدرے کم ہے۔
تصویر: Roland Mühlanger/Imago
اظہار تعزیت اور ہمدردی
جرمن محکمہ ڈاک نے رحلت کے موقع پر اظہار افسوس کے روایتی خط یا پوسٹ کارڈ روانہ کرنے کے حوالے سے خصوصی اور یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی تخلیق کیے ہیں۔ تدفین کی رسومات میں شرکت کے لیے بھی خصوصی پوسٹ کارڈ دستیاب ہیں۔ یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ غم زدہ خاندان کو پھول دینا بہتر ہے یا عطیات دیے جائیں۔
تصویر: Dagmar Breitenbach/DW
تدفین، سماجی رویے اور طعام
جرمنی میں تدفین اور دعائیہ عبادت کے بعد خصوصی دعوت پر قریبی دوست احباب اور رشتہ داروں کو دعوتِ طعام بھی دی جاتی ہے۔ اس دعوت میں کافی، سینڈوچز اور کیک کھانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر خاص طور پر رحلت پا جانے والے کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ ایسی دعوت طعام میں روایتی اسنیک Leichenschmaus بھی تیار کر کے رکھا جاتا ہے۔
تصویر: Daniel Karmann/picture alliance/dpa
گورکن بننے کا علم
جرمن حکومت نے سن 2005 میں مستقبل کے گورکنوں کی تربیت پر توجہ دینی شروع کی۔ اس مقصد کے لیے ایک مرکز باویرا کے شہر میونسٹر اشٹڈ میں قائم کیا گیا۔ خصوصی ماہر ٹیچرز گورکنوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اس مرکز میں تربیت کا دورانیہ تین برس پر محیط ہے۔ کورس میں تدفین کی رسومات کے علاوہ غم زدہ خاندانوں کو تسلی تشفی دینے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اسی مرکز میں چین اور روس کے گورکن بھی اعلیٰ تربیت کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: C. Löwinger
گورکنی کے عملی پہلو
تدفین کے سلسلے میں خاص طور قبر کھودنے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ قبر کھودنے میں اطراف کی دیواروں کا خاص انداز میں تیار کرنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ قبر کے کتبے کے بوجھ یا بارش کے پانی سے منہدم نہ ہو جائے۔ اسی طرح مردے کی خاک والے برتن کو کس انداز میں قبر میں رکھنا چاہیے۔ اس مناسبت سے باویرین انڈرٹیکرز ایسوسی ایشن نے میونسٹراشٹڈ میں سن 1994 سے تربیتی قبرستان قائم رکھا ہے۔
تصویر: Rosina Eckert
تدفین کی رسومات اور ثقافت
جرمن شہر کاسل میں تدفین سے جڑی رسومات کا ایک خاص عجائب گھر قائم کیا گیا ہے۔ یہ عجائب گھر سن 1992 میں کھولا گیا تھا۔ اس میں قبر، قبرستان اور کفن دفن کے حوالے سے معلومات میسر ہیں۔ تابوت لے جانے والی جدید کار کے ساتھ اسی میوزیم سے حاصل کی گئی تصویر میں سن 1880 میں میت لے جانی گھوڑا گاڑی دکھائی گئی ہے۔
تصویر: Museum für Sepulkralkultur Kassel
11 تصاویر1 | 11
پبلک براڈکاسٹر این ڈی آر کے مطابق ہیمبرگ کی پارلیمان کا یہ فیصلہ جرمنی میں اپنی نوعیت کا اولین قانونی فیصلہ تو نہیں مگر کسی پورے صوبے کی سطح پر منظور کیا جانے والا یہ بہرحال اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہے۔
وسطی جرمن صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے شہر کوبلینس اور مغربی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر اَیسن کے ایک نواحی علاقے میں مقامی بلدیاتی اداروں کی طرف سے یہ اجازت پہلے ہی دی جا چکی ہے کہ ان قبروں میں، جن میں انسانی لاشیں یا ان کی راکھ دفن کی جاتی ہیں، مشترکہ طور پر پالتو جانوروں کی راکھ والے راکھ دان بھی دفنائے جا سکتے ہیں۔
کیتھولک کلیسا کا موقف
جرمنی میں مسیحیوں کے کیتھولک کلیسا نے ہیمبرگ میں اس نئے قانون کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے، ''یہ بات قابل فہم ہے کہ مردوں کی تدفین سے متعلق جرمن ثقافت اور سماجی رسم و رواج بدل رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کا مردوں کی تدفین سے متعلق قوانین میں بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔‘‘
نیوز ایجنسی کے این اے کے مطابق جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور جہاں گھروں میں پالتو کتے یا بلیاں رکھنا معمول کی بات ہے، قبرستانوں کے منتظم اداروں کو عوامی سطح پر ایسے مسلسل زیادہ ہوتے ہوئے سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ آیا پالتو جانوروں کے مرنے کے بعد ان کی راکھ کو ان کے مالکان کی لاشوں یا راکھ کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک ہی قبر میں رکھا جا سکتا ہے؟
کتوں کی دس نسلیں، جن کی جڑیں جرمنی میں ہیں
کیا آپ کے ذہن میں چند ایسے کتوں کے نام ہیں، جن کا تعلق بنیادی طور پر جرمن سرزمین سے ہے؟ کچھ اپنے نام سے جرمن نہیں لگتے لیکن ہیں خالص جرمن۔ ایک مدت ہوئی یہ کتے پوری دنیا میں اپنے جرمن ہونے کی وجہ سے مشہور ہو چکے ہیں۔
تصویر: Imago/Danita Delimont
گریٹ ڈین
نام سے لگتا ہے کہ یہ ڈینش (ڈنمارک کا) ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بڑے قد کے یہ کتے جرمن ہی ہیں۔ کتوں کی یہ نسل سترہویں صدی میں ’جرمن رائلز‘ اور اُن کے شکار کرنے والے ساتھیوں کے جنسی ملاپ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ گریٹ ڈینز دنیا میں سب سے زیادہ قد والے کتوں کی نسل ہے۔ جرمن انہیں ’ڈوئچے ڈوگے‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ 2010ء میں اُتاری گئی یہ تصویر دنیا کے سب سے بڑے کتے کی ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
امیریکن اسکیمو ڈاگ
یہ کتا پہلی عالمی جنگ کے بعد اچانک ’امریکی‘ بن گیا تھا، جب امریکا نے جرمنی کے ساتھ اس کے تعلق سے متعلق تمام تر تفصیلات منظر سے ہٹا دی تھیں۔ اس کتے کو امریکا میں سرکس میں مزاحیہ کردار ادا کرنے کے باعث شہرت ملی۔ امریکی کینل کلب اس کتے کو ایک منفرد نسل قرار دیتا ہے لیکن بیلجیئم کا ادارہ FCI اس سے متفق نہیں اور کہتا ہے کہ یہ کتا ہمیشہ سے ’جرمن اشپٹس‘ تھا اور رہے گا۔
تصویر: Imago/Danita Delimont
باکسر
اٹھارویں صدی میں جرمن شہر میونخ کے تین مردوں نے ایک بُل ڈاگ کا ایک نامعلوم نسل کے کتے سے جنسی ملاپ کروایا اور اس تجربے کو چند اور نسلوں تک جاری رکھا۔ نتیجہ ایک ایسے کتے کی شکل میں سامنے آیا، جس کا چہرہ کلبی دُنیا میں فوری طور پر شناخت ہو جانے والے چہروں میں سے ایک ہے۔ اس کے بارے میں تفصیلات اب بھی وہی ہیں، جو 1902ء میں لکھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود اس کتے کی اصل جڑیں ابھی تک پردہٴ اَسرار میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈاخس ہُنڈ
’ڈاخس‘ یعنی بجّو، چھوٹے پاؤں والے ان کتوں کی افزائش شکاری کتوں کے طور پر کی گئی۔ انگریزی میں آج بھی یہ ’وِینر ڈاگز‘ ہیں اور یہ شوق سے بِل ہی نہیں کھودتے بلکہ کاٹتے بھی ہیں۔ 2008ء کے ایک جائزے کے مطابق بیس فیصد پالتو ڈاخس ہُنڈ کتوں نے اجنبیوں کو کاٹ لیا۔ ایسا ایک کتا جرمن شہنشاہ ولہیلم ثانی کے پاس بھی تھا، جو نواب فرانز فیرڈینانڈ سے ملنے گئے تو اُس کتے نے نواب کی ایک سنہری چکور کو کاٹ کر مار ڈالا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
چھوٹا اور بڑا ’مُنسٹر لینڈر‘
1902ء میں کتے کی اس نسل کو، جسے پہلے نظر انداز کیا جا رہا تھا، ایک جرمن باشندے ایڈمُنڈ لوئنز کی کوششوں سے قبول عام کی سند ملی، جسے خوبصورت جسم والے ان کتوں میں شکار کی بھی زبردست صلاحیت نظر آئی تھی۔ چھوٹے مُنسٹر لینڈر (تصویر) کتوں کی افزائش کے سخت اور اعلیٰ معیارات کے باعث اس نسل کے کتے بہت کم دستیاب ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ چھوٹے مُنسٹر لینڈر کتوں کا بڑے مُنسٹر لینڈر کتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
تصویر: Eva-Maria Krämer
وائیمارانر
سنہری جِلد، تیکھی آنکھیں اور انسان کے ساتھ گھُل مِل جانے والے، وائیمارانر نسل کے کتوں کی ہر ادا دلفریب سمجھی جاتی ہے۔ سب سے پہلے شہر وائیمار میں اس کتے کی افزائش کی گئی۔ اس کی منفرد بات یہ کہ اس شکاری کتے کو پالتو کتے کے طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جرمنوں کو یہ کتے اتنے پسند تھے کہ ملک سے باہر بھیجتے وقت انہیں بانجھ کر دیا جاتا تھا تاکہ ان کی نسل آگے نہ بڑھے، گو اس نسل کو بڑھنے سے روکا نہ جا سکا۔
یہ اٹھارویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔ جرمن شہر اپولڈا میں عدالت میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے فریڈرش لوئس ڈوبرمان کو ٹیکس جمع کرنے والے افسر کے طور پر رات کو ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران حفاظت کے لیے ایک کتے کی ضرورت پڑی۔ چونکہ وہ مقامی مویشی خانے کا بھی انچارج تھا، اُس نے وائیمارانر، پِنشر اور پوائنٹر کتوں کی کراس بریڈنگ سے وہ پہریدار کتا پیدا کیا، جسے ہم آج ڈوبرمان پِنشر کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Imago/alimdi
روٹ وائلر
کتوں کی یہ نسل قرونِ وُسطیٰ کے تاجروں کی وفادار ساتھی ہوا کرتی تھی۔ یہ کتے مویشیوں اور گوشت والی بیل گاڑیوں کی حفاظت کرتے تھے اور چوروں و جنگلی جانوروں سے بچاتے تھے۔ ان کتوں کی افزائش جرمنی کے ایک سابقہ تجارتی مرکز روٹ وائل میں ایسے کتوں کے طور پر کی گئی، جو ہر قیمت پر سامان کی حفاظت کرنے تھے۔ یہ دنیا میں کسی بھی دوسرے کتے کے مقابلے میں زیادہ طاقت (کاٹنے کا دباؤ 149 کلوگرام) کے ساتھ کاٹ سکتے ہیں۔
تصویر: Eva-Maria Krämer
جرمن شیپرڈ
1899ء میں ’جرمن شیپرڈز کے کلب کی بریڈ رجسٹری‘ میں ’ہورانڈ فان گرافاتھ‘ نام کے ایک کتے کا نام درج کیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد انگریزوں نے اس کا نام ’السیشن‘ رکھ دیا۔ امریکیوں نے اس کے نام میں سے ’جرمن‘ کا لفظ سرے سے ہٹا دیا۔ آسٹریلیا میں عشروں تک ان پر پابندی رہی، اس خوف سے کہ کہیں اس کا جنگلی کتوں کی آسٹریلیوی نسل ’ڈِنگو‘ سے نہ ملاپ ہو جائے۔ نازی حکمران ہٹلر کے پاس ایسے چھ کتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/P. Wegner
شناؤتسر
شناؤتسر اور پِنشر آپس میں اتنا قریبی تعلق رکھتے ہیں کہ کتوں کے حوالے سے بین الاقوامی نگران ادارے ایف سی آئی کی جانب سے انہیں ایک ہی گروپ گردانا جاتا ہے۔ جنوبی جرمنی میں شناؤتسر کتوں کو بنیادی طور پر مویشیوں کے باڑوں میں رکھا جاتا تھا اور یہ چوہوں کو پکڑا کرتے تھے۔ انہیں چوہوں کے نوکیلے دانتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے کان اور دُمیں کتر دی جاتی تھیں۔
تصویر: Colourbox/Celso Diniz
10 تصاویر1 | 10
وفاقی قانون: قبرستان بنیادی طور پر صرف انسانوں کے لیے
جرمنی میں مجموعی طور پر 150 کے قریب قبرستان ایسے بھی ہیں، جو صرف جانوروں کے لیے مخصوص ہیں اور جہاں عام شہری اپنے مر جانے والے پالتوں جانوروں کو دفنا سکتے ہیں۔
دوسری طرف وفاقی سطح پر مروجہ قانون کے مطابق عام قبرستان صرف انسانوں کے لیے ہی ہوتے ہیں جبکہ پالتو جانوروں کی راکھ والے راکھ دانوں کو وہاں 'قبر میں اضافی طور پر رکھی گئی اشیاء ‘ میں سے ایک کے طور پر رکھنے کی اجازت ہے۔
ہیمبرگ میں کل رات منظور کیا گیا نیا صوبائی قانون بھی اسی وفاقی قانون کے دائرہ کار اور حدود کے اندر رہتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس قانون کی منطوری کے بعد ہیمبرگ کے کئی شہریوں نے اس فیصلے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ابتدائی معلومات کی خاطر حکام سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، کے این اے)
جانور: انسانی تفریح کا سامان
انسان سامان برداری کے ساتھ ساتھ زراعت میں بھی جانوروں سے کام لیتے ہیں اور اُنہیں گھروں میں پالتو جانوروں کے طور پر بھی رکھتے ہیں لیکن دنیا کے مختلف حصوں میں جانور کئی اچھی بُری رسموں اور ثقافتی روایات کا بھی حصہ ہیں۔
تصویر: UNI
یہ خون نہیں، محبت کا رنگ ہے
بظاہر لگتا ہے کہ اس کتے کو کوئی گہرا زخم آیا ہے لیکن درحقیقت اس طریقے سے انسان اور مخصوص جانوروں کے درمیان خصوصی تعلق کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ نیپال میں ہر سال ’تہار‘ کے نام سے روشنیوں کا ایک پانچ روزہ میلہ لگتا ہے، جس میں کتّوں کو ہار پہنائے جاتے ہیں یا اُن کے جسموں پر رنگ دار پاؤڈر لگایا جاتا ہے۔ دیوتاؤں کے ساتھ عقیدت کے اظہار کے لیے منعقدہ اس میلے میں کتوں کو خاص کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Narendra Shrestha
بندروں کے لیے ضیافت
بندروں کے لیے اس سالانہ ضیافت کا اہتمام تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے شمال کی جانب واقع صوبے لوب پُوری میں کیا جاتا ہے۔ اس جشن کا فائدہ صرف بندروں کو ہی نہیں بلکہ مقامی کاروباری افراد کو بھی ہوتا ہے اور سیاح بھی لطف اندوز ہوتے ہیں، جن کے لیے پہلی مرتبہ یہ میلہ 1989ء میں سجایا گیا تھا۔ تقریباً تین ہزار بندر مندروں کے سامنے میزوں پر رکھے چار ہزار کلوگرام پھل، سبزیاں اور مٹھائیاں کھا جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Sangnak
یہاں کتوں کی خیر نہیں
جنوبی چین میں ژولین کے مقام پر ہر سال موسمِ گرما میں لیچی (پھل) اور کتے کے گوشت کا میلہ لگتا ہے، جو دس روز تک جاری رہتا ہے۔ اس متنازعہ میلے کے شرکاء کوئی دس ہزار کتوں کا گوشت چَٹ کر جاتے ہیں۔ میلے کے منتظمین کے مطابق کتوں کو اس طرح سے ہلاک کیا جاتا ہے کہ اُنہیں کم سے کم تکلیف ہو تاہم ناقدین شکایت کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کھلے عام زندہ کتوں کی کھال اُتاری جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ایک خونیں ’کھیل‘
’بُل فائٹنگ‘ کے ہسپانوی ثقافت کا ایک اٹوٹ انگ ہونے اور اس کی ثقافتی اہمیت کے بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں لیکن اس بے رحمانہ ’کھیل‘ میں خون بہرحال بہت بہتا ہے۔ بعض دفعہ اسٹیڈیم میں جمع سینکڑوں اور کئی بار ہزاروں تماشائی شور مچا رہے ہوتے ہیں جبکہ یکے بعد دیگرے کئی کھلاڑی بار بار آگے جا کر بیل کو مختلف طرح سے مہلک زخم لگاتے رہتے ہیں۔ اسپین کے دو علاقوں میں اس ’کھیل‘ پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Etxezarreta
جلوس کی تیاری
’رَتھ یاترا‘ کے نام سے ایک میلے کا اہتمام بھارت کے مختلف شہروں میں ہر سال جون یا جولائی میں کیا جاتا ہے۔ اس میلے کی روایت ایک سو تیس سال سے چلی آ رہی ہے۔ اس دوران ایک جلوس نکالا جاتا ہے، جس میں بھگوان جگن ناتھ کے زائرین خوبصورت رنگوں سے سجے ہوئے ہاتھیوں پر بیٹھتے ہیں۔ ان ہاتھیوں کی تعداد اٹھارہ اور بیس کے درمیان ہوتی ہے۔ اس تہوار کی تقریبات میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP/Ajit Solanki
چل اُڑ جا رے اے باز!
قطر میں ہر سال بازوں اور اُن کے ساتھ شکار کا دنیا کا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ ’دی قطر انٹرنیشنل فیسٹیول آف فالکنز اینڈ ہنٹنگ‘ ایک ماہ تک جاری رہتا ہے اور اس کا مقصد ’نوجوان نسل کو جنگلی حیات اور بازوں کے تحفظ کے لیے سرگرم کرنا‘ بتایا جاتا ہے۔ باز اس ملک کی ثقافت کا ایک اہم جزو ہیں۔ رفتار، ٹھیک ٹھیک نشانے اور خوبصورتی کے شعبوں میں عمدہ کارکردگی پر انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/N. Bothma
مُنہ سے اُڑتی جھاگ کا میلہ
اونٹوں کی لڑائی کا یہ میلہ رواں ہفتے کے اوائل سے بحیرہٴ ایجیئن کے ساحل پر واقع ترک شہر سلجوک میں شروع ہوا ہے۔ تین مہینے تک جاری رہنے والے اس میلے منہ سے جھاگ اڑاتے کوئی 100 اونٹوں کے درمیان مقابلے ہوتے ہیں، جنہیں لوگ دور دور سے دیکھنے جاتے ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق ترکی کے موجودہ قوانین میں گزشتہ تقریباً 2400 سال سے منعقد ہوتے چلے آ رہے اس طرح کے میلوں کی گنجائش نہیں ہے۔