1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیمبرگ یونیورسٹی میں اسکول کے طالبعلموں کے لیے بین الاثقافتی سیمینار

کشور مصطفقیٰ23 جولائی 2013

ہیمبرگ یونیورسٹی میں 2005 ء سے ایک ایسا تعلیمی پروگرام جاری ہے جس کا مقصد ان بچوں کو اسکول کی سطح پر درپیش تعلیمی مسائل سے نکالنے میں مدد کرنا اور انہیں یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کے حصول کے قابل بنانا ہے۔

تصویر: DW/Janine Albrecht

جرمنی کے شہر ہیمبرگ کی یونیورسٹی کی طرف سے تارکین وطن گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک ایسے کثیرالاثقافتی سیمینار کا اہتمام کیا گیا ہے جو جرمن یونیورسٹیوں میں داخلے کی درخواست جمع کرانے میں ان نوجوانوں کے لیے مدد گار ثابت ہوگا۔ تاکہ یہ نوجوان اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹی میں جرمن زبان، ریاضی اور نیچرل سائنسز کے شعبوں میں مزید علمی مہارت حاصل کر سکیں گے۔ یہ کورسز تارکین وطن گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ایسے طالبعلموں کی طرف سے پڑھائے جائیں گے جو یونیورسٹی کی سطح پر دوران تعلیم ہی بحیثیت ٹیوٹر نئے نوجوان طالبعلموں کو تعلیم دینے پر مامور ہیں۔

جرمنی میں تارکین وطن گھرانوں کے والدین کو جرمن والدین کے مقابلے میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ حالانکہ تارکین وطن گھرانوں کے بچے جرمن بچوں کے مقابلے میں کم عقل نہیں ہوتے۔ ہاں جرمن زبان ان کے لیے مشکلات کا سبب بنتی ہے اور اس میں اُن کے والدین بھی اُن کی مدد نہیں کر سکتے۔

غیر ملکی بچوں کو اسکول کی سطح سے ہے جرمن زبان پر توجہ دینی چاہیےتصویر: DW/Janine Albrecht

ہیمبرگ یونیورسٹی میں 2005ء سے ایک ایسا تعلیمی پروگرام جاری ہے جس کا مقصد ان بچوں کو اسکول کی سطح پر درپیش تعلیمی مسائل سے نکالنے میں مدد کرنا اور انہیں یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کے حصول کے قابل بنانا ہے۔ اسکول کے بچوں کے لیے جاری اس بین الاثقافتی سیمینار میں دراصل کوشش یہ کی جاتی ہے کہ طالبعلموں کو جن شعبوں میں دشواریوں کا سامنا ہے یا انہیں جو چیزیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں، اُسے بہتر طور سے سمجھنے میں اُن کی مدد کی جائے۔ سب سے زیادہ توجہ جرمن زبان کی آگاہی پر دی جاتی ہے۔ لڑکے لڑکیوں کو اسکول کے بعد یونیورسٹی میں ہفتے میں دو بار اس سیمینار میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ پانچ بچوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایک ٹیچرکسی بھی جرمن تحریر یا متن کے بارے میں بات چیت کرتا ہے اور اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔

" جرمن شہر ڈساؤ میں قائم ’باؤ ہاؤس‘ اب ایک میوزیم بن چکا ہے۔ جو ایک مشہور آرٹ اسکول کی کہانی بیان کرتا ہے۔ 20 کی دہائی میں یہاں ایک نیا اسٹائل متعارف ہوا تھا" ۔

گیئرترودے اسکول کی ایک طالبہ ہے جو جرمن زبان میں لکھا ہوا یہ متن پڑھ رہی ہے۔ اسے اور اس کی کئی دوسری ساتھیوں کو بالکل علم نہیں کہ یہ باؤ ہاؤس کیا چیز ہے۔ ان کی ٹیچر لیزا میزونس نیکووا اپنے طالبعلموں کو پھر سے جرمن زبان میں لکھے اس متن کو پڑھنے اور اسے سمجھنے کی مشق کروا رہی ہیں۔ تارکین وطن گھرانوں کے بچوں کی جرمن لغت کمزور ہوتی ہے۔ جرمن گرامر میں بھی یہ کافی پیچھے ہوتے ہیں۔ یہ بچے بنیادی سطح کی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جمنازیم میں داخلہ لیتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ یونیورسٹی میں داخلے کے قابل بن سکیں۔

ہیمبرگ یونورسٹی کا یہ پروجیکٹ 2005 ء سے جاری ہےتصویر: DW/Janine Albrecht

ٹیچر لیزا میزونس نیکووا کہتی ہیں، " یہ معاملہ محض زبان یا الفاظ سمجھنے کا نہیں ہے بلکہ طالبعلموں کی مجموعی علم و آگہی کا بھی ہے۔ آج ہم باؤ ہاؤس کے بارے میں پڑھ رہے تھے۔ جرمن بچوں کو  پتہ ہے کہ یہ کیا چیز ہے۔ جرمن والدین اپنے بچوں کو ایسی جگہیں دکھانے لے جاتے ہیں، ان کے ساتھ ہر موضوع پر بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن تارکین وطن گھرانوں میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا، ان کے  بچوں کو بالکل نہیں معلوم کہ باؤ ہاؤس کیا ہے" ۔ 

ہیمبرگ یونیورسٹی کے اس پروجیکٹ کے ذریعے چوتھی جماعت سے بچوں کو جرمن، انگریزی اور ریاضیات کی تعلیم میں اضافی مدد کی جاتی ہے۔ اس پروجیکٹ کی سربراہ پروفیسر اُرزولا نوئمن  کا کہنا ہے،" اس کورس میں لسانیات اور پیشہ ورانہ زبان کے مابین ربط پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ہم اسے تعلیمی زبان کہتے ہیں۔ جبکہ عام اسکولوں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ اس کی تعلیم نہیں دیتے بلکہ طالبعلموں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر سے یہ سب سیکھ کر آئیں" ۔

اسکول ٹیچرز گرچہ محسوس کرتے ہیں کہ جرمن زبان کے معاملے میں تارکین وطن بچوں میں یہ کمی پائی جاتی ہے تاہم انہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ اسے کیسے دور کریں۔ تارکین وطن گھرانوں میں اکثر والدین جرمن زبان اور ثقافت پر عبور نہیں رکھتے اس لیے وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی زیادہ مدد نہیں کر پاتے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں