ہیمبُرگ، ذرائع ابلاغ اور بندرگاہ ایک نظر میں
22 مئی 2013ذرائع ابلاغ کے تقریباﹰتمام بڑے اداروں کے دفاتر یہاں قائم ہیں۔ جرمنی کا معروف روزنامہ Bild یعنی تصویر یہی سے شائع کیا جاتا ہے۔ جرمن پریس ایجنسی DPA کا صدر دفتر بھی یہاں واقع ہے اور جرمنی کے مشہور ہفتہ وار جریدے ڈی سائیٹ Die Zeit یعنی وقت اور ڈیر شپیگلDer Spiegel یعنی آئینہ، سمیت دیگر لاتعداد اخبار اور میگزین بھی یہاں سے شائع کئے جاتے ہیں۔
یہ شہر پرنٹنگ پریس اور ٹیلی وژن کی ایجاد سے پہلے سے دنیا کے ساتھ رابطے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ قرون وسطٰی کے دور میں یہاں تاریخی بندرگاہ تعمیر کی گئی تھی جس نے اس شہر میں تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ جغرافیائی طور پر یہ شہر دریائے البے (River Elbe) اور دریائے آلسٹر(River Alster) کے سنگم پر واقع ہے۔
ایک بڑا بندرگاہی شہر
جرمنی کے شمال میں واقع اس عروس البلاد کی پہچان یہاں کی کہرآلود فضا اور چاروں طرف اڑتے مرغابیوں کے جُھنڈ ہیں۔ یہاں جا بجا چائے خانے اور ریستوران ہیں جن سے شہر کی فضا میں کافی اور مختلف انواع کے پکوانوں کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔ سینٹ مائیکل چرچ، جو کہ شہر کے مرکز میں واقع ہے، سے بندرگاہ پر کھڑی دیوہیکل کرینیں باآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں کی سو سال سے زائد قدیم بندرگاہ معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ جرمنی کی تجارتی نقل وحمل کے لحاظ سے سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ ہر سال تقریبا آٹھ کروڑ ٹن سے زیادہ سامان یہاں جہازوں پر چڑھایا اور اتارا جاتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کمپنیوں اور بندرگاہ نے اس شہر کو خوشحال بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ شہر کی شاہراوں کے دونوں جانب شاپنگ پلازہ اور دکانیں ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں جابجا جاذب نظر حویلیاں نظر آتیں ہیں، جن سے یہاں کی خوشحال زندگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس شہر کا شمار یورپ کے امیر ترین شہروں میں کیا جاتا ہےلیکن دوسری جانب طالب علموں کے لئے یہ کافی مہنگا شہر ہے۔
یہاں کے باشندوں کو مچھلیوں اور ڈیزل کی بو میں رچی بسی بندرگاہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے البتہ ملاحوں اور سیاحوں کے لئے یہ خاص کشش رکھتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ جرمنی کا دوسرا بڑا شہر ہے اور تقریبا سترہ لاکھ باشندے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ یہ نہ برلن کی طرح بڑا اور پر ہجوم اور نہ ہی میونخ کی طرح خوبصورت اور اکتا دینے والا ہے۔
یہ شہر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کا اہم مرکز ہے۔ یہاں کئی جامعات اور سائنسی تحقیق کے ادارے ہیں اور تقریبا ساٹھ ہزار طالب علم یہاں زیر تعلیم ہیں۔ اسے ’سائنس کی دنیا کا دروازہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔