1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیومن رائٹس واچ پر سے امریکی چھاپ ختم کرنے کی کوشش

8 ستمبر 2010

انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس واچ پر سے ایک امریکی ادارے کی طور پر لگی چھاپ ختم کرنے کے لئے امریکی ارب پتی جورج سوروس نے ایک سو ملین ڈالر صرف کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی پبلک سیکٹر کے نیشنل ریڈیو کو دئے گئے انٹریو میں سوروس نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے امریکہ کی اب وہ ساکھ نہیں رہی جو پہلے تھی اس لئے ہیومن رائٹس واچ پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اسی سالہ سوروس کے مطابق ایک سو ملین ڈالر کے ذریعے ہیومن رائٹس واچ کو ایک حقیقی بین الاقوامی ادارے کے طور پر ڈھالنے کی کوشش کی جائے گی جس میں امریکی شہری اقلیتی ارکان کے طور پر رہیں۔

سن 1978 میں قائم کی گئی اس تنظیم کا بنیادی مقصد سابق سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنا تھا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ کار ایشیا، براعظم امریکہ کے دیگر ممالک، مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک پھیل گیا۔ اس تنظیم کو 1997ء میں امن کے نوبل انعام کا شریک حقدار بھی قرار دیا جاچکا ہے۔ دنیا بھر میں لگ بھگ تین سو افراد اس سے منسلک ہیں اور یہ ادارہ انسانی حقوق سے متعلق ہر سال ایک سو رپورٹیں جاری کرتا ہے۔

جورج سوروس: فائل فوٹوتصویر: AP

یہودی عقائد کے پیروکار اسی سالہ جورج سوروس 1930ء میں ہنگری میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک چالاک امریکی بزنس مین اور سماجی شعبے کی سرگرم شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سوروس کی گرانٹ ملنے کے بعد ہیومن رائٹس واچ کا سالانہ بجٹ 48 سے 80 ملین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

ہیومن رائٹس واچ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ سوروس کی جانب سے ملنے والے اس گرانٹ کے ذریعے دنیا بھر میں اپنے کارکنوں کی تربیت اور ایسے ممالک میں تحقیق پر صرف کری گی جہاں انسانی حقوق کی پامالیاں عام ہیں۔

اس سلسلے میں بالخصوص قرٗ ء ارض کے ابھرتے جنوبی ممالک چین، برازیل، بھارت اور انڈونیشیا کے نام لئے گئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کینتھ روتھ کے بقول انسانی حقوق سے متعلق سنجیدہ نوعیت کی پامالیوں کے سدباب کے لئے اس خطے کی حکومتوں سمیت دنیا بھر کے بااثر حلقوں کی کوششیں ضروری ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں