ہیٹی:مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران صحافیوں پر فائرنگ
9 فروری 2021
کیریبیائی ملک ہیٹی میں اپوزیشن رہنماوں نے موجودہ صدر جووینل موئز کو ہٹا کر ایک عبوری صدر مقرر کردیا ہے۔ یہ پیش رفت موئز کی جانب سے اپنے خلاف بغاوت کا الزام عائد کرنے کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔
اشتہار
ہیٹی میں صدر جووینل موئز کی حکومت کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کے دوران پیر کے روز دو صحافیوں کو گولی لگ گئی۔
ہیٹی سے شائع ہونے والے اخبار ریزو نوڈویز کے مطابق دونوں صحافیوں کو اس وقت گولی لگ گئی جب وہ پیر کے روز احتجاجی مظاہروں کی براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ فوری طور پر یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کتنے شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں۔
دیگر مقامی صحافیوں نے بھی دو صحافیوں کے گولی لگنے کی تصدیق کی ہے۔
موئز کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ہیٹی کے اپوزیشن رہنماوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک عبوری صدر کی تقرری کر دی ہے۔ نامزد صدر جوزف میسین زاں لوئی ہیتی کی سپریم کورٹ کے سب سے بزرگ جج ہیں۔
جوزف میسین نے ایک ٹوئٹ میں کہا”میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی جانب سے عارضی مدت کے دوران عبوری صدر کے طور پر ملک کی خدمت کے لیے خود کو پسند کیے جانے کو قبول کرتا ہوں۔
جوزف میسین نے ایک ٹوئٹ میں کہا”میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ عارضی مدت کے لیے عبوری صدر کے طور پر ملک کی خدمت کے لیے اپوزیشن اور سول سائٹی کی جانب سے اپنے انتخاب کو قبول کرتا ہوں۔"
اپوزیشن رہنما اینڈرے مائیکل نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ”ہم جووینل موئز کے صدارتی محل چھوڑنے کے منتظر ہیں تاکہ ہم مسٹر میسین زاں لوئی کو عبوری صدر کے عہدے پر فائز کر سکیں۔"
یہ تقرری موئز کی جانب سے اس اعلان کے ایک دن بعد ہوئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی کوشش سکیورٹی افسران نے نا کام بنا دی۔ اس مبینہ بغاوت کے بعد تقریباً 23 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں سپریم کورٹ کے ایک جج اور ایک اعلی پولیس عہدیدار شامل تھے۔
اپوزیشن رہنماوں کا دعوی ہے کہ موئزکی مدت صدارت فروری 2016 میں شروع ہوئی تھی اور گزشتہ اتوار کو ختم ہوگئی۔ لیکن موئز اور ان کے حامیوں کا دعوی ہے کہ ان کی مدت صدارت 2017 سے شروع ہوئی تھی۔ صدر کا کہنا ہے کہ وہ اکتوبر 2017 میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہونے والے شخص کو اقتدار سونپ دیں گے لیکن فروری 2022 میں مدت صدارت ختم ہونے تک اپنا عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔
اقوام متحدہ کی تشویش
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے کہا کہ اقوام متحدہ کو ہیٹی کے سیاسی بحران پر شدید تشویش لاحق ہے۔
سکریٹری جنرل کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ موئز کی مدت صدارت فروری 2022 میں ختم ہونے والی ہے۔ انہوں نے موئز کے اقتدار کے دعوے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی طر ف سے حمایت کے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ امریکا نے اگلے برس تک اقتدار میں رہنے کے موئز کے دعوے کی حمایت کی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔