ہیٹی میں فسادات اور اقوام متحدہ کی فوج پرحملے
16 نومبر 2010ہیٹی کے کئی شہروں میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے خلاف پرتشدد فسادات پھیل گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی امن فوج کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم دومظاہرین ہلاک ہوگئے ہیں۔ مظاہرین نے مختلف مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرکے اور ٹائرجلا کر سڑکوں کو بلاک کردیا ہے۔
احتجاج کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ہیٹی میں گزشہ 50 برس کے دوران پھیلنے والی ہیضے کی اس پہلی وبا کی وجہ اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل نیپالی فوجی بنے ہیں۔ وبائی امراض پر نظر رکھنے والے امریکی سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق ہیٹی میں ہیضے کی وجہ بننے والا بیکٹیریا دراصل جنوبی ایشیا میں پائے جانے والے ہیضے کے بیکٹیریا سے ملتا جلتا ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ وبا پر قابو پانے سے قبل قریب دو لاکھ افراد اس سے متاثر ہوسکتے ہیں اور اس کوشش میں چھ ماہ تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
ادھر نیپالی فوج نے کہا ہے کہ اس نے ہیٹی میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں خدمات انجام دینے والے اپنے فوجیوں پر حملوں کے بعد متعلقہ حکام سے ان کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک ہزار سے زائد نیپالی فوجی ہیٹی میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ ہیں۔
اقوام متحدہ ان الزامات کی تحقیق کررہی ہے کہ ہیٹی میں پچاس برسوں کے دوران پھیلنے والی ہیضے کی یہ وبا دراصل بیکٹیریا سے متاثرہ پانی کے ان ٹینکوں سے پھیلی جو میریلبالائس نامی شہر کے قریب اس کی امن فوج کے کیمپ میں موجود تھے۔ زیادہ تر نیپالی فوجی اس کیمپ میں موجود ہیں۔
ہیٹی میں پھیلنے والی حالیہ وبا کی وجہ سے ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں اب تک 917 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جبکہ اس وبا سے 15 ہزار سے زائد افراد متاثرہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں ہیٹی کے وسطی اور شمالی علاقوں میں ہوئی ہیں۔
تاہم حالیہ فسادات اور افواہوں کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس وبا کی وجوہات کی تلاش فی الحال اس ادارے کی ترجیح نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ایک ترجمان فیڈیلا چھیب کے مطابق اس وقت اہم ترجیح ان افراد کی مدد ہے جو اس وبا سے متاثر ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا،" بعد میں کسی وقت ہم اس بارے میں تحقیق ضرور کریں گے، تاہم یہ فوری ترجیح نہیں ہے۔"
رپورٹ : افسراعوان
ادارت : کشورمصطفیٰ