1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیٹی میں ہیضہ: ہلاکتوں کی تعداد 600 سے زیادہ

11 نومبر 2010

ہیٹی میں ہیضے کی وبا کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 600 سے تجاوز کر گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال مغربی علاقے میں یہ وبا شدت اختیار کر رہی ہے، جہاں ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

تصویر: AP

ہیٹی میں ہیضے کی وبا تین ہفتےقبل پھوٹی اور اب تک 640 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ وہاں حکام کا کہنا ہے کہ شمال مغربی شہر Gonaives بری طرح اس مرض کی لپیٹ میں ہے۔ اس شہر کے میئر پیئریلوس سینٹ جسٹن کا کہنا ہے کہ وہ منگل کو ذاتی طور 31 افراد کی آخری رسومات کی ادائیگی میں شریک ہوئے جبکہ مزید 15 افراد کی تدفین کی تیاری کی جا رہی ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہیٹی حکام نے ملک بھر میں 648 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کہ اس تعداد میں Gonaives کی کتنی اموات کو شامل کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آٹھ نومبر تک متاثرہ افراد کی تعداد تقریباﹰ دس ہزار ہو چکی ہے۔

ہیٹی کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعہ کو اپ ڈیٹ جاری کئے جانے تک ہلاکتوں کی تعداد یقینی طور پر 700 سے تجاوز کر جائے گی۔

دوسری جانب سینٹ جسٹن نے روئٹرز کے ساتھ ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا، ’ہماری اس گفتگو کے دوران بھی کچھ لوگ مر رہے ہوں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پانچ نومبر سے اب تک شہر میں کم از کم 70 افراد کی تدفین عمل میں آ چکی ہے، اور یہ تعداد تو شہر کے مرکز میں ہلاک ہونے والوں کی ہے جبکہ نواحی علاقوں میں مرنے والے اس کے علاوہ ہیں۔

واضح رہے کہ ہیٹی کے اس شمال مغربی شہر کے لئے آفتیں کوئی نہیں بات نہیں، 2004ء اور 2008ء میں سمندری طوفانوں کے نتیجے میں بھی وہاں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہلاکتوں کی تعداد سات سو سے تجاوز کر سکتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سینٹ جسٹن کا کہنا ہے کہ ہیضے کی وبا کے باعث وہاں صورت حال تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہےکہ رواں ماہ آنے والے سمندری طوفان سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا، ’ہم مدد کی اپیل کر رہے ہیں کہ جو بھی یہاں آسکتا ہے، مدد کے لئے آئے۔ ہسپتال بھرے پڑے ہیں، ان میں گنجائش سے کہیں زیادہ مریض موجود ہیں۔‘

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں