یاسین ملک نے قانونی مدد کی پیش کش ٹھکرا دی
23 اگست 2022ایک خصوصی عدالت کی طرف سے قانونی امداد کی پیش کش کو مسترد کر دینے کے بعد عدالت نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک سے کہا کہ وہ اپنا موقف تحریری طور پر، ستمبر کے تیسرے ہفتے میں، کیس کی سماعت کی اگلی تاریخ پر پیش کریں۔ بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کی سن 1990میں قتل کے ایک کیس میں یاسین ملک کے خلاف جموں کی ایک عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔
یاسین ملک اس وقت دہلی کے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ انہوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ پیر کے روز کیس کی سماعت میں حصہ لیا۔
کشمیر کی آزادی کے اپنے بابا کے مشن کو آگے بڑھاؤں گی، رضیہ سلطانہ
سی بی آئی کی وکیل مونیکا کوہلی نے بتایا کہ 56 سالہ ملک دہشت گردی کی فنڈنگ کے ایک کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ کوہلی کا کہنا تھا کہ یاسین ملک کو قانونی امداد کی پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے اسے ٹھکرا دیا جس کے بعد خصوصی عدالت نے ان سے کہا کہ وہ اپنا موقف مذکورہ کیس کی اگلی سماعت پر تحریری طورپر پیش کریں۔ اگلی سماعت آئندہ ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔
کوہلی کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر عدالت میں حاضر ہونے کی یاسین ملک کی درخواست عدالت نے اس لیے مسترد کر دی کیونکہ اس حوالے سے ہائی کورٹ کی واضح ہدایات موجود ہیں کہ تمام کیسز میں ملزمین کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ پیش کیا جائے۔ اس کے باوجود عدالت نے انہیں قانونی مدد کی پیش کش کی لیکن ملک نے پیش کش ٹھکرا دی۔
یاسین ملک کی بھوک ہڑتال
جے کے ایل ایف کے ایک ترجمان نے یاسین ملک کو عدالت میں بذات خود حاضر ہونے کی اجازت نہیں دینے کو''غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر جمہوری" قرار دیا۔
یاسین ملک نے اس سے قبل الزام لگایا تھا کہ مرکزی حکومت روبیہ سعید اغوا کیس میں جموں کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران انہیں بذات خود حاضر ہونے کی اجازت نہیں دے رہی اس لیے انہوں نے 22 جولائی سے دس روزہ بھوک ہڑتال شروع کردی تھی۔
تاہم بھارتی حکام نے یکم اگست کو جب یاسین ملک کو بتایا کہ ان کے مطالبات سے متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے تو انہوں نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی تھی۔ بھوک ہڑتال کی وجہ سے یاسین ملک کی طبیعت جب زیادہ بگڑنے لگی تھی تو انہیں تہاڑ کی جیل نمبر سات سے طبی محکمے کے زیر انتظام ایک وارڈ میں منتقل کرنا پڑاتھا جہاں مائع شکل میں غذا اور ادویات فراہم کی گئی تھی۔
'یاسین ملک کے خلاف مقدمہ فرضی'
بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی کی ایک عدالت نے ممنوعہ تنظیم جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک کو مختلف کیسوں میں مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یاسین ملک کو کشمیر میں ''دہشت گردی کے لیے چندہ جمع کرنے اور کشمیر میں بھارت مخالف مہم اور افراتفری پھیلانے" کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
تاہم کئی عالمی تنظیموں اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی نے اس کے لیے بھارت پر سخت تنقید کی تھی۔ او آئی سی کی انسانی حقوق کے ونگ نے کہا تھا کہ ''یہ تنظیم بھارت میں ایک فرضی مقدمے کی بنیاد پر ممتاز کشمیری سیاست دان یاسین ملک کو من گھڑت الزامات کے تحت غیر قانونی طور پر سزا سنائے دینے کی مذمت کرتی ہے۔''
یاسین ملک کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے تنظیم نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں لوگوں کو آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعے اپنے ''مستقبل کا تعین کرنے کا جو حق حاصل ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔''
یاسین ملک کے خلاف اس کے علاوہ بھی کئی کیس ہیں، تاہم وہ گزشتہ سماعتوں کے دوران یہ بات کہہ چکے ہیں انہیں بھارتی عدالتوں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے۔