اسرائیلی پیرا ملٹری فورسز نے ہفتے کے دن یروشلم میں ایک فلسطینی حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق اس حملہ آور نے چاقو سے وار کرتے ہوئے تین افراد کو زخمی کر دیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے یکم اپریل بروز ہفتہ بتایا ہے کہ ایک فلسطینی حملہ آور نے یروشلم کے قدیمی حصے میں تین اسرائیلیوں کو چاقو سے نشانہ بنایا، جس کے جواب میں فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے اسے ہلاک کر دیا۔
بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ مغربی اردن کے شہر نابلوس سے تعلق رکھنے والے اس حملہ آور نے چاقو سے دو اسرائیلی راہگیروں کو نشانہ بنایا اور فرار ہو گیا۔ حکام کے مطابق اس حملے میں زخمی ہونے والے دونوں اسرائیلی الٹرا آرتھوڈوکس یہودی تھے۔
پولیس نے تعاقب کے بعد جب اس فلسطینی حملہ آور کو ایک رہائشی علاقے میں گھیرے میں لیا تو اس نے ایک سکیورٹی اہلکار پر بھی حملہ کر دیا۔ تب اسرائیلی فورسز نے اس پر فائرنگ کر دی اور وہ مارا گیا۔ یروشلم میں پولیس ترجمان مکی روزنفیلڈ نے بتایا کہ زخمی ہونے والے اسرائیلیوں کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔
روئٹرز نے فلسطینی ویب سائٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حملہ آور کا نام احمد غزال تھا۔ بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ مغربی اردن کے شہر نابلوس کے اس رہائشی کی عمر سترہ برس تھی۔ اس فلسطینی نوجوان نے یہ حملہ دمشق گیٹ کے قریب اسی مقام پر کیا، جہاں تین روز قبل بارڈر فورس نے ایک فلسطینی حملہ آور خاتون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس خاتون پر بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے چاقو کی مدد سے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔
بارود کے ڈھیر پر بیٹھا اسرائیل
اسرائیل اور اُس کے پڑوسیوں کے مابین متعدد تنازعات پھر سے شروع ہو چکے ہیں۔ فوجی کارروائیوں میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ اسرائیل سے اعتدال پسندی سے کام لینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
تصویر: Reuters
حماس کے خلاف ایک بڑی چھاپہ مار مہم
اسرائیلی فوج مغربی کنارے میں گزشتہ دو ہفتوں سے اپنے تین مغوی نوجوان شہریوں کو ڈھونڈ رہی ہے۔ یہ سن 2002ء کے بعد سے حماس کے خلاف سب سے بڑا آپریشن ہے۔ اس دوران بارہ ہزار گھروں کی تلاشی لی جا چکی ہے، پانچ فلسطینیوں کو قتل اور 350 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Reuters
کوئی سراغ نہیں ملا
اسرائیل نے یہ کارروائی ایک یہودی مدرسے کے تین طالب علموں کی اچانک گمشدگی کے بعد شروع کی تھی۔ اسرائیل کے مطابق سولہ سے انیس سال کی عمر کے تین نوجوانوں کو فلسطینیوں نے اغوا کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم مقام سکریٹری جنرل جیفری فلٹ من کے مطابق ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ’باعث تشویش‘ ہے۔
تصویر: Timothy A. Clary/AFP/Getty Images
الزامات اور بے بسی
لاپتہ نوجوانوں کے لواحقین بے یقینی کا شکار ہیں۔ لاپتہ نوجوان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اسرائیل نے اغوا کا الزام حماس پر عائد کیا ہے جبکہ حماس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت اس واقعے کو حماس کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔
تصویر: Reuters
سرچ آپریشن کے سبب کشیدگی میں اضافہ
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے سرچ آپریشن کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی نظر میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سکیورٹی کی ذمہ داری عباس حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ صدر عباس پر اندرونی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/Mussa Qawasma
فلسطینی فلسطینیوں پر حملہ آور
عباس حکومت تین اسرائیلی نوجوانوں کی تلاش میں مدد فراہم کر رہی ہے جس کے خلاف فلسطینیوں ہی نے رملہ میں مظاہرے بھی کیے ہیں۔ مبصرین کی نظر میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین حالیہ کشیدگی میں اضافہ فتح اور حماس کی متحدہ حکومت کے لیے بھی خطرہ ہے۔
تصویر: Reuters
گولان پہاڑیوں پر تنازعہ
اسرائیل اور شام کی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں پر کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمبار طیاروں نے شامی فوج کے نو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ ایک جوابی حملہ تھا۔
تصویر: Reuters
شام کی اقوام متحدہ سے اپیل
شام نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی فضائیہ کے ان حملوں کی مذمت کرے۔ شامی وزارت خارجہ نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھتے ہوئے ان حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
اقوام متحدہ میں عدم اتفاق
لاپتہ یہودی طالب علموں کا معاملہ بھی اقوام متحدہ کے سامنے لایا گیا ہے۔ ایک روسی مسودے میں اغوا پر ’مذمت‘ اور متعدد فلسطینیوں کی ہلاکت پر ’افسوس‘ کا اظہار کیا گیا ہے۔ اردن نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے جبکہ امریکا نے اسرائیل پر ہر قسم کی براہ راست تنقید کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters
8 تصاویر1 | 8
اکتوبر سن دو ہزار پندرہ سے شروع ہونے والے ایسے حملوں کے باعث 242 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ان میں سے 162 فلسطینی ایسے تھے، جنہوں نے اسرائیلوں پر حملہ کیا تھا یا کرنے کی کوشش کی تھی اور جوابی کارروائی میں انہیں ہلاک کیا گیا۔ اس عرصے میں لقمہٴ اجل بننے والے دیگر فلسطینی مختلف جھڑپوں میں جان سے مارے گئے۔
ان پُر تشدد واقعات میں اب تک دو امریکیوں کے علاوہ 37 اسرائیلی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیادت کی طرف سے اکسانے کے نتیجے میں یہ حملے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔