یروشلم کی حیثیت، اقوام عالم نے امریکی فیصلہ مسترد کر دیا
عاطف توقیر
22 دسمبر 2017
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کی حیثیت سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے متعلق ہونے والی رائے شماری میں اقوام عالم کی واضح اکثریت نے امریکا کے خلاف ووٹ دیا۔
اشتہار
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے امریکی فیصلے کے خلاف پیش کی گئی قرارداد میں جمعرات کی شام 128 ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جب کہ اس قرارداد کی مخالفت میں فقط نو ووٹ ڈالے گئے۔ اس رائے شماری میں 35 ممالک نے حصہ نہیں لیا۔
رائے شماری سے قبل اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نِکی ہیلی نے خبردار کیا تھا کہ وہ ان تمام ممالک کے نام صدر ٹرمپ کو بتائیں گی، جو اس قرارداد میں امریکا کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔ نِکی ہیلی نے کہا تھا کہ امریکا کے خلاف ووٹ ڈالنے والے تمام ممالک کی امداد بند کر دی جائے گی۔ تاہم خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اقوامِ عالم کی واضح اکثریت نے اس امریکی دھمکی کو نظرانداز کر دیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد پر عمل درآمد لازم تو نہیں، تاہم اس قرارداد نے واضح انداز سے امریکی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے، جو فلسطینیوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
193 رکنی جنرل اسمبلی میں تاہم 35 ممالک نے اس رائے شماری میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا جب کہ 21 ممالک غیرحاضر رہے۔ اس قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کے اس موقف کی حمایت ہوتی ہے، جو سن 1967 سے اس منقسم شہر سے متعلق اقوام عالم کا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یروشلم کی حیثیت کا حتمی فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے طے ہونا چاہیے۔
اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے واضح انداز سے کہا تھا کہ جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کا اس کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس قرارداد پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ اس ’فضول قرارداد‘ کو مسترد کرتے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس قرارداد کو فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کامیابی فقط فلسطینیوں کی ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفیر نِکی ہیلی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود فقط سات ممالک کو امریکی اور اسرائیلی موقف پر رضامند کر سکیں، جو ان کی ’واضح ناکامی‘ ہے۔
یروشلم کے معاملے پر یورپی رد عمل
02:56
انہوں نے کہا کہ اس قرارداد کو ناکام بنانے کے لیے امریکا نے بھرپور کوششیں کیں اور سفارتی ذرائع کے ساتھ ساتھ ’بلیک میلنگ اور حقائق کو مسخ‘ کرنے تک جیسے طریقے آزمائے۔ واضح رہے کہ نِکی ہیلی نے اس قرارداد سے قبل 180 ممالک کو خطوط لکھے تھے، جن میں کہا گیا تھا کہ اگر انہوں نے امریکا کے خلاف ووٹ ڈالا، تو ان کی امداد بن کر دی جائے گی اور انہیں دیگر نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے۔