یمنی بحران: پاکستانی پارلیمان کا مشترکہ اجلاس پیر کو
2 اپریل 2015![](https://static.dw.com/image/16909595_800.webp)
سعودی قیادت میں عرب اتحادی افواج کی جانب سے جمعرات 26 مارچ سے یمن میں حوثی شیعہ جنگجوؤں کے علاوہ ملکی صدر منصور ہادی کے خلاف لڑنے والے ملکی فوج کے دستوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ منصور ہادی کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے، ملک کے شمالی بندرگاہی شہر عدن پر باغیوں کی طرف سے گزشتہ شب بھی شدید بمباری کی گئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حوثی شیعہ باغیوں نے آج جمعرات کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عدن کے ایک وسطی حصے کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔
پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان قریبی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات کے باعث سعودی عرب کی سرحدی خود مختاری کو لاحق کسی بھی خطرے کی صورت میں پاکستان کی طرف سے بھرپور ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔‘‘
اس بیان کے مطابق، ’’وزیر اعظم نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اس حوالے سے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ پاکستان عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے وزیر اعظم نے صدر سے درخواست کی ہے کہ وہ پیر چھ اپریل کو پارلیمان کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کریں تاہم قومی اہمیت کے اس معاملے پر صلاح و مشورے کیے جا سکیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بیان وزیر اعظم نواز شریف کو اس اعلیٰ سطحی وفد کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ کے بعد جاری کیا گیا جو سعودی عرب سے گزشتہ روز واپس لوٹا تھا۔ ایک حکومتی اہلکار کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف یمن کے معاملے پر مشاورت کے سلسلے میں کل جمعہ کے روز ترکی بھی جائیں گے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کے مطابق پارلیمانی سیشن ایک دن سے زائد بھی جاری رہ سکتا ہے اور یہ کہ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا اس معاملے پر ووٹنگ بھی ہو گی یا نہیں۔
پاکستان میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں کی طرف سے گزشتہ ہفتے ایک مظاہرے کے دوران مطالبہ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کا دفاع کیا جائے۔ تاہم سول سوسائٹی کے بعض گروپ اور بعض سیاستدان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب اور یمن کے تنازعےسے دور رہے ورنہ پاکستان کا بھی اس تنازعے میں فریق بن جانا ملک میں اور زیادہ مذہبی منافرت کی وجہ بنے گا۔