یمنی جنگ میں اب تک دو لاکھ تینتیس ہزار ہلاکتیں، اقوام متحدہ
2 دسمبر 2020
عرب دنیا کے انتہائی پسماندہ اور غریب ترین ملک یمن کی جنگ میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران دو لاکھ تینتیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ لاکھوں انسان اس جنگ یا اس کے اثرات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
اشتہار
نیو یارک میں عالمی ادارے کے انسانی بنیادوں پر امداد سے متعلقہ امور کے رابطہ دفتر (OCHA) کی طرف سے بتایا گیا کہ 2015ء میں شروع ہونے والا یمن کا جنگی تنازعہ دنیا کا بدترین انسانی بحران بن چکا ہے۔
دریں اثنا یہ جنگ مزید کثیر الجہتی ہو کر اب اتنی پھیل چکی ہے کہ اس تنازعے کے واضح طور پر قابل شناخت دھڑوں اور محاذوں کی تعداد اب 47 ہو چکی ہے۔ یہ امر یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ تنازعہ کتنا طویل، ہلاکت خیز اور پیچیدہ ہو چکا ہے۔
جنگ کے براہ راست اور بالواسطہ نتائج
اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے مطابق پانچ سال قبل شروع ہونے والی یمن کی جنگ کے نتیجے میں تقریباﹰ ایک لاکھ 31 ہزار انسان تو صرف بھوک، بیماریوں، غربت اور دیگر جنگی اثرات کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ رواں سال کے صرف پہلے نو ماہ کے دوران اس ملک میں کئی طرح کی جنگی کارروائیوں میں مزید تقریباﹰ 1500 عام شہری بھی مارے گئے۔
یوں عرب دنیا کے اس پہلے سے ہی غریب ترین اور جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکے ملک میں اب تک جنگ کے نتیجے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر دو لاکھ 33 ہزار انسانوں کی جان جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کی عالمی وبا، شدید بارشوں، پٹرول کی قلت، اور ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے بھی اس ملک اور اس کی معیشت کو اتنا شدید نقصان پہنچا ہے کہ رواں سال اس عرب ریاست کے لیے غیر معمولی حد تک تباہ کن ثابت ہوا ہے۔
اشتہار
'ناقابل معافی جرم‘
یمن کی کئی سالہ جنگ اس ملک کے عوام کے لیے کتنی ہولناک ثابت ہوئی ہے، اس کا اندازہ حال ہی میں تعز میں بھی لگایا جا سکتا تھا۔ اقوام متحدہ کے دفتر او سی ایچ اے کے یمن کے لیے نگران سربراہ الطاف موسانی نے تعز میں جس رہائشی علاقے کا حالیہ دورہ کیا، اس کے بعد انہوں نے وہاں عام شہریوں کے گھروں پر توپ خانوں سے کی جانے والے گولہ باری کو بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا نام دیا۔
الطاف موسانی کے مطابق، ''ایسے بے حس اور لایعنی حملے، جن کے نتیجے میں بہت سے بچے اور خواتین بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، قابل مذمت بھی ہیں اور ناقابل معافی بھی۔‘‘ اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران یمن میں تعز اور الحدیدہ کے علاقوں میں جو جنگی حملے کیے گئے، ان میں کم از کم 11 بچے بھی مارے گئے جبکہ شہری ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ تھی۔
امدادی رقوم کی عدم فراہمی
OCHA کے مطابق یمن میں حالات اتنے خراب ہیں کہ وہاں انسانی بنیادوں پر فوری امداد کے حق دار مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد عنقریب ہی مزید بڑھ کر 24.3 ملین ہو جائے گی۔ ان تقریباﹰ ڈھائی کروڑ انسانوں کی مدد کے لیے عالمی ادارے نے بین الاقوامی برادری سے 3.4 بلین ڈالر کی امدادی رقوم کی درخواست کی تھی۔
لیکن ہوا یہ کہ اب تک ان رقوم کے محض ایک بہت ہی چھوٹے سے حصے کی فراہمی کے وعدے کیے گئے ہیں جبکہ عملاﹰ مہیا کردہ رقوم کی مالیت تو ان مالیاتی وعدوں کا بھی صرف چند فیصد ہی بنتی ہے۔
اس عمل میں یہ بات بھی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے کہ اس جنگی کے مسلح فریق اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں یا سرے سے امداد کی فراہمی کی اجازت ہی نہیں دیتے۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
9 تصاویر1 | 9
یمن میں لڑی جانے والی دوسروں کی جنگ
یمن کی جنگ میں بظاہر دو بڑے فریق ہیں۔ ایک تو وہ حکومت جو پانچ سال پہلے تک اقتدار میں تھی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تھی اور دوسرا فریق وہ حوثی شیعہ باغی جنہوں نے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔
سعودی عرب یمنی حکومت کا حلیف تھا اور ہے اور اسی لیے اس نے 2015ء میں ہی حوثی باغیوں کے خلاف اپنی قیادت میں ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد قائم کر لیا تھا۔ دوسری طرف ایران ہے، جو حوثی باغیوں کا حامی ہے۔ اس طرح یمن کی جنگ ایک ایسا کثیر الفریقی تنازعہ بھی ہے، جو 'دوسروں کی جنگ ہے لیکن یمن میں لڑی جا رہی ہے‘۔
م م / ا ا (ای پی ڈی)
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔