یمنی جنگ میں مغربی، جرمن ہتھیاروں سے ہلاکتوں کا ذمے دار کون؟
مقبول ملک نرمین اسماعیل / ک م
7 فروری 2019
مغربی دنیا بشمول جرمنی کی طرف سے متحدہ عرب امارات کو فروخت کیے گئے ہتھیار اس ملک سے انتہائی غریب اور جنگ زدہ ریاست یمن میں مختلف ملیشیا گروپوں تک پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کا باعث بن رہے ہیں۔
اشتہار
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کو مغربی دنیا کی طرف سے جو ہتھیار مہیا کیے جاتے ہیں، وہ وہاں سے یمن کی خانہ جنگی میں شریک مختلف ملیشیا گروپوں کو پہنچائے جا رہے ہیں۔
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے ابھی حال ہی میں متحدہ عرب امارات کا جو دورہ کیا، اس سے بین الاقوامی سطح پر اس عرب ریاست کی ساکھ مزید مثبت ہوئی کیونکہ پاپائے روم کا یہ دورہ کسی بھی پوپ کا اس ملک کا اولین دورہ تھا۔
پوپ فرانسس کے اس دورے سے یو اے ای کو خود کو ’باہمی برداشت والے ایک معاشرے‘ کے طور پر پیش کرنے کا موقع بھی ملا۔
لیکن اس دورے کے محض چند ہی روز بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک ایسی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں متحدہ عرب امارات پر ہتھیاروں کی غیر قانونی تجارت اور قومی سرحدوں کے پار ترسیل کا الزام لگایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تنظیم کی طرف سے کی گئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے یمن میں مختلف ملیشیا گروپوں کو جدید ترین اسلحے سے لیس کیا جا رہا ہے۔
ہزارہا انسانی ہلاکتیں
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مغربی ہتھیاروں میں بکتر بند گاڑیاں، مارٹر سسٹم، چھوٹے آتشیں ہتھیار، پستولیں اور بڑی تعداد میں مشین گنیں بھی شامل ہیں، جن کی وسیع تر مقدار ایسے مسلح یمنی جنگی گروپوں تک پہنچ رہی ہے، جن پر کسی بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ کے مطابق، ’’ایسے ملیشیا گروپوں پر یمن میں جنگی جرائم کے علاوہ انسانی حقوق کی انتہائی شدید نوعیت کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے ملیشیا گروپوں کو ان ہتھیاروں کی فراہمی یمن کی پہلے سے تباہ حال شہری آبادی کے لیے اور بھی ہولناک ثابت ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی بہت تشویش ناک ہے کہ یمن کی جنگ اب تک ہزارہا عام شہریوں کی جان لے چکی ہے اور لاکھوں انسانوں کو بھوک کے انتہائی شدید مسئلے کا سامنا بھی ہے۔‘‘
انتہائی سنگین نوعیت کے ان الزامات کے باوجود، جو اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات اور یمنی ملیشیا گروہوں پر عائد کیے جاتے ہیں، ابھی کچھ عرصہ قبل ہی یورپ کے برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بیلجیم جیسے ممالک نے یو اے ای کو یا تو کئی طرح کی نئے دفاعی برآمدات کی منظوری دی یا پھر ان ممالک سے جدید ہتھیار عملاﹰ اماراتی حکومت کو برآمد کر دیے گئے۔
کسی تیسرے فریق کو غیرقانونی فراہمی
ایمنسٹی کے مطابق یو اے ای سے ایسے ہتھیاروں کا یمن پہنچایا جانا اس لیے غیر قانونی اور قابل مذمت ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت کے بہت سے معاہدوں میں اکثر ایسی شقیں بھی شامل ہوتی ہیں کہ درآمد کردہ اسلحہ بالآخر کہاں پہنچے گا اور کہاں استعمال کیا جائے گا۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H.Mohammed
10 تصاویر1 | 10
جرمنی کے شہر بون میں قائم ہتھیاروں سے متعلق بین الاقوامی مرکز BICC کے سیاسی امور کے ماہر اور امن پر تحقیق کرنے والے محقق ماکس مُچلر کہتے ہیں، ’’ہتھیاروں کے ایسے تجارتی سودوں میں ایک لازمی شق ہمیشہ اس امر کی تصدیق کرنا ہوتی ہے کہ یہ درآمدی ہتھیار کسی تیسرے فریق کو مہیا نہیں کیے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور یمنی ملیشیا گروہوں کے معاملے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایسا تجارتی معاہدوں میں شامل ضمانت ناموں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا۔
ماکس مُچلر کہتے ہیں کہ اگرچہ ایسا کرنا ہتھیاروں کے کسی بھی تجارتی معاہدے کی شرائط کے منافی ہے، پھر بھی گزشتہ کئی برسوں سے ایسی کسی خلاف ورزی کے بعد درآمد کنندہ ملک کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ درآمدی ہتھیار ایسی حکومتوں کو بیچے گئے، جنہوں نے انہیں آگے کسی اور کے حوالے کر دیا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ اسلحے کی تجارت کی نگرانی کے نظام میں کمزوریوں کا عکاس ہے۔‘‘
اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی درآمد
یمن میں خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر آج تک مغربی ممالک نے صرف متحدہ عرب امارات کو ہی کم از کم ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار مہیا کیے ہیں۔ عرب دنیا کی غریب ترین ریاست یمن میں مارچ دو ہزار پندرہ سے ایک ایسی جنگ جاری ہے، جس میں ایک طرف اگر ایران نواز حوثی باغیوں کی شیعہ ملیشیا ہے تو دوسری طرف ملکی صدر منصور ہادی کی حامی عسکری قوتیں۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
9 تصاویر1 | 9
یہ معاملہ اب تک بالواسطہ طور پر ایک علاقائی مسئلہ اس طرح بن چکا ہے کہ یمنی صدر منصور ہادی کی حامی فورسز کو سعودی عرب کی قیادت اور کئی عرب ریاستوں کی عملی حمایت کی صورت میں ایک ایسے عسکری اتحاد کا تعاون بھی حاصل ہے، جو برسوں سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے بھی کر رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق یمنی جنگ میں اب تک دس ہزار سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے ہزاروں عام شہری تھے۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
جرمن ہتھیاروں کی مالیت نصف ارب یورو
جرمنی مین اسلحہ سازی کی صنعت کے بڑے بین الاقوامی گاہکوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات ایک اہم نام بن چکا ہے۔ پچھلے صرف تین برسوں کے دوران جرمن حکومت کی طرف سے اس خلیجی ریاست کو ہتھیاروں کی برآمد کے جن سمجھوتوں کی منظوری دی گئی، ان کی مجموعی مالیت 490 ملین یورو بنتی ہے۔
اس کے علاوہ سال 2017ء میں جرمنی نے اسلحے کی برآمدات کے کل 1.3 بلین یورو مالیت کے ایسے معاہدوں کی منظوری دی، جن کے نتیجے میں یہ ہتھیار ان ممالک کو فراہم کیے گئے، جو یمنی جنگ کے عسکری فریق بن چکے ہیں۔ گزشتہ برس یو اے ای کو جرمنی سے ہتھیاروں کی برآمد میں کافی کمی آئی، جس کا سبب مارچ 2018ء میں جرمنی میں طے پانے والا وہ مخلوط حکومتی معاہدہ تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ یمنی جنگ میں شریک ممالک کو، جب تک وہ ایسا کرتے رہیں گے، جرمنی سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں کیے جائیں گے۔
ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کا مطالبہ
BICC کے ماکس مُچلر نے مطالبہ کیا ہے کہ یمن کی جنگ کے فریق ممالک، خاص طور پر متجدہ عرب امارات کو مغربی دنیا کی طرف سے اسلحے کی برآمد پر پابندی لگائی جانا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے اجتماعی سیاسی ارادے کی کمی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید یہ کہ اگر جرمنی میں موجودہ مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے مابین معاہدے میں یمنی جنگ کے فریق ممالک کو ہتھیار مہیا نہ کرنے کی شق شامل ہے بھی تو مجموعی طور پر یورپی ممالک میں ایسی کسی پابندی پر آمادگی کا فقدان ہے۔
یمن، امن کی ترویج آرٹ سے
یمن میں ایک اسٹریٹ آرٹسٹ نے صنعا کے مقامی رہائشیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ گلیوں میں اپنی مرضی کی تصاوير بنائیں، موضوع لیکن یمن کے خانہ جنگی اور شورش ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Gateau
شعور و آگہی
مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دس شہروں میں ’اوپن ڈے فار آرٹ‘ کے موقع پر مراد سوبے نامی مصور کی جانب سے منعقدہ گلیوں میں تصویری اظہار کے ایونٹ میں مقامی لوگ شریک ہوئے اور انہوں نے اس کاوش کا خیر مقدم کیا۔ گلیوں میں تصاویر بنانے کے اس عمل میں ہر عمر کے مصور اور طالب علم یمن میں امن کی ترویج کے لیے شعور و آگہی پھیلا رہے ہیں۔
تصویر: Najeeb Subay
امن کا پیغام
اس ایونٹ کے بعد، جو ایک ہی وقت میں یمن کے چھ مختلف علاقوں بہ شمول مارب شہر میں منعقد ہوا، مراد سوبے نے کہا، ’’اس ایونٹ کا پیغام نہایت سادہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ایک امید کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک کے اس انتہائی مشکل دور میں کیا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اقدام امن کی ترویج سے بھی عبارت ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں اس تصویری نمائش میں سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایونٹ کے منتظم من ہی لیز، جو خود بھی کوریائی جنگ کا حصہ رہے، نے کہا کہ نمائش دیکھنے آنے والوں پر ان تصاویر کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ ’’امن کبھی کسی ایک شخص کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر مراد اور ہماری ملاقات سے ہم نے یہ سیکھا کہ دل جنگ سے نفرت کریں تو امن کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Heavenly Culture/World Peace/Restoration of Light Organization
بھرپور تعاون
تعز شہر میں اس نمائش میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر یمنی شہروں کی طرح یہاں بھی ایسا ایک ایونٹ رکھا گیا تھا۔ عدن اور حدیدہ میں بھی ایسی ہی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ یمنی تنازعے کو خطے کے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی قرار ديتے ہيں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Odina for Artistic Production
ایک گہرا پیغام
مصور صفا احمد نے مدغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی محسوسات کا تصویری اظہار کریں۔ یہ وہ بچے تھے، جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے۔ اس طرح ایک نہایت گہرا اور دل کو چھو لینے والا پیغام دیا گیا۔
تصویر: Raissa Firdaws
ایک مسکراہٹ بھی
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں یمنی اسٹونٹ یونین کی مدد سے کلچرل ڈائورسٹی آرگنائزیشن نامی تنظیم نے ورلڈ کلچر اوپن کے نام سے ایک تقریب منعقد کی۔
تصویر: Yemeni Student Union/World Culture Open
تعریف پیرس سے بھی
پیرس میں قریب 25 افراد نے اس مہم کے تحت ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب کی آرگنائز خدیجہ السلامی، جو خود ایک فلم ساز ہیں، نے بتایا کہ وہ کیوں اس مہم میں شامل ہوئیں۔ ’’یہ بہت اہم تھا کہ مراد کے ساتھ مل کر یمنی شہریوں کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔‘‘
تصویر: Khadija Al-Salami
امن کی مہم پھیلتی ہوئی
مراد کی یہ آرٹ مہم بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت جنگ کے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات، جبری گم شدگیوں، ہیضے کی وبا اور ڈرون حملوں جیسے امور کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ آئندہ مہنیوں میں کینیڈا، امریکا اور جبوتی تک میں اس مہم کے تحت تصویری نمائشیں اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔