یمنی جنگ میں یورپی ممالک مداخلت سے کتراتے کیوں ہیں؟
25 اپریل 2018
عرب دنیا میں یمنی تنازعہ سن 2011 سے جاری ہے تاہم یورپی یونین شام کی صورت حال کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ لاکھوں مہاجرین خیال کیے جاتے ہیں۔
اشتہار
یمن میں جاری خانہ جنگی کو سات برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس خانہ جنگی میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم کثیرالملکی اتحاد بھی ایران نواز حوثی ملیشیا کو فضائی اور زمینی افواج کے حملوں سے نشانہ بنانے میں مصروف ہے لیکن جنگی صورت حال میں کمی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری جانب یمنی مسلح تنازعے کے حوالے سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں اور خاص طور پر فرانس اور برطانیہ کا جھکاؤ سعودی عرب کی جانب دکھائی دیتا ہے۔ سن 2015 میں فرانس نے سعودی حکومت کو دو ارب ڈالر کے ہتھیار اور اسلحہ فروخت کیا تھا۔ برطانیہ سے بھی سعودی عرب کی اسلحے کی خریداری سوا ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
یوں برطانیہ اور فرانس کا شمار سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے والے اہم ممالک میوں ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فرانس اور برطانیہ کی حکومتوں کے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ انتہائی گہرے روابط ہیں۔ یورپی اقوام کی جانب سے یمن کی شہری آبادیوں پر کیے جانے والے حملوں کی مذمت بھی کم ہی دیکھی گئی ہے۔
جرمن شہر مائنز کی یونیورسٹی کے ریسرچ سینٹر برائےعرب امور کے سربراہ گُنٹر مائیر کا خیال ہے کہ یورپی اقوام کو یمن میں سویلین آبادیوں کی انتہائی خراب صورت حال کی کوئی پرواہ نہیں ہے جب کہ ان ملکوں پر یمن کی مدد و معاونت کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے۔ جرمن چانسلر میرکل کی حکومت نے ابھی کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کی ہے۔
پروفیسر گُنٹر مائیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی ممالک کے نزدیک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ ریاض حکومت کے ساتھ اِن تعلقات کی بنیاد سیاسی اور اقتصادی ہے۔ دوسری جانب عرب دنیا کے ساتھ یورپی اقوام کے تعلقات پر تحقیق کرنے والے یمنی محقق علی العبسی کا خیال ہے کہ یمن میں سعودی عرب کی حمایت سے قائم کردہ منصور ہادی حکومت پر یورپی ممالک کو عدم اطمینان ہے اور اس باعث بھی یمن کی مالی امداد سے گریز کیا جاتا ہے۔ علی العبسی عرب جرمن چیمبر آف کامرس اور صنعت کے مشیر بھی ہیں۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H.Mohammed
10 تصاویر1 | 10
مبصرین کے مطابق شام کے گیارہ ملین سے زائد مہاجرین یورپی اقوام کے لیے زیادہ ہمدردی کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اور اسی باعث یمنی تنازعہ مناسب توجہ حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے۔ شام کے لاکھوں مہاجرین مہاجرت اختیار کرتے ہوئے یورپی ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب یمن کے اندر تیس لاکھ مہاجرین بے گھری کا سامنا کر رہے ہیں۔ یمنی مہاجرین ابھی تک یورپ پہنچنے کی کوشش میں نہیں ہیں اور یہ لوگ یمن کے علاوہ زیادہ تر سعودی عرب، عراق اور دوسرے ممالک میں عارضی پناہ گاہوں میں آباد ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یمنی تنازعے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یمن میں ساٹھ فیصد ہلاکتوں کی وجہ سعودی فضائی حملے ہیں۔
یمن، امن کی ترویج آرٹ سے
یمن میں ایک اسٹریٹ آرٹسٹ نے صنعا کے مقامی رہائشیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ گلیوں میں اپنی مرضی کی تصاوير بنائیں، موضوع لیکن یمن کے خانہ جنگی اور شورش ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Gateau
شعور و آگہی
مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دس شہروں میں ’اوپن ڈے فار آرٹ‘ کے موقع پر مراد سوبے نامی مصور کی جانب سے منعقدہ گلیوں میں تصویری اظہار کے ایونٹ میں مقامی لوگ شریک ہوئے اور انہوں نے اس کاوش کا خیر مقدم کیا۔ گلیوں میں تصاویر بنانے کے اس عمل میں ہر عمر کے مصور اور طالب علم یمن میں امن کی ترویج کے لیے شعور و آگہی پھیلا رہے ہیں۔
تصویر: Najeeb Subay
امن کا پیغام
اس ایونٹ کے بعد، جو ایک ہی وقت میں یمن کے چھ مختلف علاقوں بہ شمول مارب شہر میں منعقد ہوا، مراد سوبے نے کہا، ’’اس ایونٹ کا پیغام نہایت سادہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ایک امید کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک کے اس انتہائی مشکل دور میں کیا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اقدام امن کی ترویج سے بھی عبارت ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں اس تصویری نمائش میں سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایونٹ کے منتظم من ہی لیز، جو خود بھی کوریائی جنگ کا حصہ رہے، نے کہا کہ نمائش دیکھنے آنے والوں پر ان تصاویر کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ ’’امن کبھی کسی ایک شخص کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر مراد اور ہماری ملاقات سے ہم نے یہ سیکھا کہ دل جنگ سے نفرت کریں تو امن کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Heavenly Culture/World Peace/Restoration of Light Organization
بھرپور تعاون
تعز شہر میں اس نمائش میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر یمنی شہروں کی طرح یہاں بھی ایسا ایک ایونٹ رکھا گیا تھا۔ عدن اور حدیدہ میں بھی ایسی ہی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ یمنی تنازعے کو خطے کے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی قرار ديتے ہيں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Odina for Artistic Production
ایک گہرا پیغام
مصور صفا احمد نے مدغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی محسوسات کا تصویری اظہار کریں۔ یہ وہ بچے تھے، جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے۔ اس طرح ایک نہایت گہرا اور دل کو چھو لینے والا پیغام دیا گیا۔
تصویر: Raissa Firdaws
ایک مسکراہٹ بھی
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں یمنی اسٹونٹ یونین کی مدد سے کلچرل ڈائورسٹی آرگنائزیشن نامی تنظیم نے ورلڈ کلچر اوپن کے نام سے ایک تقریب منعقد کی۔
تصویر: Yemeni Student Union/World Culture Open
تعریف پیرس سے بھی
پیرس میں قریب 25 افراد نے اس مہم کے تحت ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب کی آرگنائز خدیجہ السلامی، جو خود ایک فلم ساز ہیں، نے بتایا کہ وہ کیوں اس مہم میں شامل ہوئیں۔ ’’یہ بہت اہم تھا کہ مراد کے ساتھ مل کر یمنی شہریوں کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔‘‘
تصویر: Khadija Al-Salami
امن کی مہم پھیلتی ہوئی
مراد کی یہ آرٹ مہم بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت جنگ کے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات، جبری گم شدگیوں، ہیضے کی وبا اور ڈرون حملوں جیسے امور کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ آئندہ مہنیوں میں کینیڈا، امریکا اور جبوتی تک میں اس مہم کے تحت تصویری نمائشیں اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔