یمنی جنگ میں یورپی ہتھیار ’جلتی پر تیل‘ ہیں، یورپی پارلیمان
15 نومبر 2018
یورپی پارلیمان کے مطابق عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن کی جنگ میں یورپی ہتھیاروں سے اس خونریز تنازعے کو ہوا مل رہی ہے اور یورپی یونین کو اس صورت حال کے تدارک کے لیے بہت سخت نگرانی اور پابندیاں متعارف کرانا چاہییں۔
اشتہار
فرانس کے شہر اسٹراس برگ سے پندرہ نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق چودہ نومبر بدھ کی شام اس موضوع پر اپنی تفصیلی بحث میں یورپی پارلیمان کے ارکان نے جس بہت تنقیدی موقف کا اظہار کیا، وہ بہت سے یورپی حلقوں کے لیے ضمیر کی آواز بھی ثابت ہوا اور آنکھیں کھول دینے والی حقیقت بھی۔
یورپی پارلیمان کے اراکین کے بقول یورپی ممالک سے اپنے ہاں ہتھیار درآمد کرنے والے جو ممالک اس بلاک اور اس کی رکن ریاستوں کے اخلاقی اور سکیورٹی ضابطوں کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان کے خلاف یونین کو پابندیاں لگا دینا چاہییں۔
اس کے علاوہ اسلحے کے یورپی برآمد کنندہ ممالک کو اس بارے میں اپنے نگرانی کے عمل کو بھی مزید سخت بنانا چاہیے کہ ان سے خریدے گئے ہتھیار کون کون سے ممالک کہاں کہاں اور کیوں استعمال کر رہے ہیں۔
’جلتی پر تیل‘
اسٹراس برگ میں اس بارے میں یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کا موقف یہ تھا کہ ہتھیاروں کی یورپی برآمدات یمن کی خانہ جنگی کو ہوا دینے کا سبب بن رہی ہیں۔ ان منتخب یورپی نمائندوں کے مطابق یہ صورت حال ’جلتی پر تیل ڈالنے‘ کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ یمن کی جنگ میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں ایک کثیرالریاستی عسکری اتحاد اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے اور سعودی عرب کو یورپی ممالک کی طرف سے ہتھیار مہیا کیے جانا دراصل ہتھیاروں پر کنٹرول کی یورپی کوششوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
’جنگ کی وجہ ہی یورپی ہتھیار‘
یورپی پارلیمان کی ایک جرمن خاتون رکن زابینے لوزِنگ ان سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہوتی ہیں، جو اس بارے میں یورپی ممالک کی حکومتوں کو جواب دہ بنائے جانے کی کٹر حامی ہیں۔ زابینے لوزِنگ نے کہا، ’’یمن میں جو جنگ جاری ہے، اس کی بنیادی وجہ وہ ہتھیار ہیں، جو یورپ کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں۔‘‘
یورپی پارلیمان کے ارکان نے اس بلاک کی رکن ریاستوں سے ہتھیاروں کی فروخت کی سخت نگرانی اور مخصوص ممالک پر پابندیاں عائد کیے جانے کا جو مطالبہ کیا ہے، وہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یورپی قانون ساز ادارے کے اراکین کی طرف سے کیا جانے والا اپنی نوعیت کا دوسرا مطالبہ ہے۔
اسٹراس برگ کی اس پارلیمان، جس کے اجلاس برسلز میں بھی ہوتے ہیں، کے ارکان نے ایک ایسی قرارداد کی منظوری بھی دے دی، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سعودی حکمرانوں کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد یورپی ریاستوں کو اپنی اسلحے کی برآمدات محدود کر دینا چاہیے۔
اسلحے کی عالمی برآمدات میں یورپ کا حصہ
شماریاتی حوالے سے یورپی یونین دنیا بھر میں امریکا کے بعد ہتھیاروں فروخت کرنے والا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپی یونین کی اسلحے کی برآمدات سے متعلق سالانہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر سال جتنے بھی ہتھیار فروخت کیے جاتے ہیں، ان کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ یورپی ممالک ہی بیچتے ہیں۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
9 تصاویر1 | 9
یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے اب جو قرارداد منظور کی ہے، روئٹرز کے مطابق وہی قرارداد اس امر کی طرف واضح اشارہ بھی کرتی ہے کہ اسلحے کی ان برآمدات کے باعث یورپی کاروباری مفادات خود اس بلاک کی امن اور انسانی حقوق کے احترام کی اپنی ہی اقدار سے متصادم ہو گئے ہیں۔
سعودی عرب کی طرف سے خلاف ورزیاں
یورپی یونین نے اپنے رکن ممالک کی طرف سے ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق ’اسلحے کی برآمدات کے بارے میں مشترکہ موقف‘ نامی جو دستاویز منظور کر رکھی ہے، اس میں آٹھ ایسے بنیادی معیارات طے کیے گئے ہیں، جن کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق کسی بھی معاہدے کی منظوری سے پہلے پوری طرح ذہن نشین رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ارکان پارلیمان کا دعویٰ ہے کہ یمنی جنگ اور موجودہ صورت حال میں سعودی عرب کو یورپی ہتھیاروں کی ترسیل ان آٹھ یورپی معیارات میں سے چھ کے عین منافی ہے۔
یورپی پارلیمان کی جرمن رکن زابینے لوزِنگ کے الفاظ میں، ’’اسلحے کی برآمدات کا احاطہ کرنے والے مشترکہ یورپی موقف پر اس کی روح کے عین مطابق عمل درآمد ہونا چاہیے اور اس میں کسی بھی درآمد کنندہ ریاست کے خلاف پابندیاں عائد کیے جانے کا طریقہ کار بھی شامل ہے۔‘‘
م م / ع ت / روئٹرز
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔