1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی فورسز طبی امدادی کارکنوں کو ہراساں کر رہی ہیں، ایمنسٹی

24 نومبر 2016

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یمن میں حکومت نواز فورسز تعز شہر میں طبی امدادی کارکنوں کو ہراساں کر رہی ہیں۔

Jemen Zerstörte Gebäude nach Kämpfen
تصویر: picture-alliance/AA/A. Alseddik

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق حکومتی فورسز اپنے جنگجوؤں کو شہری آبادی میں تعینات کر رہی ہیں، جس سے شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کا کہنا ہےکہ تعز شہر میں حکومتی فورسز اور ایران نواز حوثی باغیوں کے درمیان لڑائی سے قبل کل آبادی تین لاکھ تھی۔ تاہم رواں ہفتے اس شدید لڑائی کی وجہ سے وہاں متعدد ہلاک شدگان کی لاشیں گلیوں میں پڑی دکھائی دے رہی ہیں، جب کہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بھی کہنا ہے کہ صدر منصور ہادی کی حامی فورسز نے متعدد مقامات پر ہسپتالوں پر چڑھائی کی اور وہاں موجود ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کو یرغمال بنایا اور انہیں قتل کی دھمکیاں دیں۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ متعدد ہسپتالوں کے باہر ٹینک بھی تعینات کیے گئے ہیں۔

تعز میں فریقین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہےتصویر: Reuters/A.Mahyoub

بتایا گیا ہے کہ حکومتی فورسز تعز شہر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر چکی ہیں، تاہم اس شہر کو حوثی باغیوں نے تین اطراف سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ شاخ کے تحقیق اور ایڈوکیسی کے شعبے کے ڈائریکٹر فِلیپ لوتھر کا کہنا ہے، ’’ایسے قابل بھروسہ شواہد مل رہے ہیں کہ حوثی مخالف فورسز خوف اور دھونس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے تعز شہر میں طبی امدادی کارکنوں کو ہراساں کر رہی ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا ہے، ’’ہسپتالوں کے قریب فوجی پوزیشنیں بنانا یا وہاں جنگجو تعینات کرنا، ہسپتالوں کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے تحت عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘‘

یمن کے نائب وزیر برائے انسانی حقوق نبیل عبدالحفیظ مجید نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ان رپورٹوں کو غیرجانب دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹیں غلط معلومات اور غلط حقائق کی بنیاد پر وضع کی گئی ہیں۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں