1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی شہر الحدیدہ پر سعودی عسکری اتحاد کے حملے بند

15 نومبر 2018

سعودی قیادت میں عرب اتحاد نے یمنی بندرگاہی شہر الحدیدہ پر اپنے فضائی حملوں کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ گزشتہ چند روز میں عرب اتحاد نے اس یمنی شہر پر زبردست فضائی حملے کیے۔

Jemen Konflikt
تصویر: Getty Images/A. Renneisen

خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے جمعرات پندرہ نومبر کے روز عینی شاہدین اور حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ عرب عسکری اتحاد کی جانب سے زمینی فورسز کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ حدیدہ میں اپنی پیش قدمی روک دے۔

یمنی جنگ میں یورپی ہتھیار ’جلتی پر تیل‘ ہیں، یورپی پارلیمان

حدیدہ پر قبضے کی لڑائی شہر کی گلیوں میں پہنچ گئی

عرب اتحاد کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب واشنگٹن انتظامیہ نے واضح انداز میں کہا ہے کہ یمنی تنازعے کے فریقین فائربندی کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں۔

یہ بات اہم ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں صدر منصور ہادی کی حامی فورسز نے عرب عسکری اتحاد کی مدد سے اس ملک کے اہم بندرگاہی شہر الحدیدہ پر قبضے کے لیے بڑی کارروائیاں کی ہیں، جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔ دوسری جانب اس بندرگاہ کی بندش کی وجہ سے اقوام متحدہ بھی خبردار کر چکا ہے کہ یمنی تنازعے سے متاثرہ لاکھوں انسانوں تک اشیائے خوراک اور دیگر امدادی سامان کی فراہمی تعطل کا شکار ہو رہی ہے، جس سے قحط کا خطرہ ہے۔

روئٹرز نے ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عسکری پیش قدمی روکنے کا یہ فیصلہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔  تاہم عرب فوجی اتحاد کی جانب سے فی الحال اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے یمن مارٹن گریفتھس اس کوشش میں ہیں کہ یمنی تنازعے کے فریقین کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر واپس لایا جائے۔ ستمبر میں اس سلسلے میں مذاکرات میں حوثی باغی شریک نہیں ہوئے تھے۔

سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادی فورسز سن 2015ء سے اس جنگ میں شامل ہیں تاکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لایا جائے۔ دوسری جانب ملک کے ایک بڑے حصے پر ایران نواز حوثی شیعہ باغی قابض ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں منصور ہادی کی حامی فورسز نے کئی علاقے حوثی باغیوں سے واپس بھی لے لیے ہیں۔

ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں