سعودی قیادت میں عرب اتحاد نے یمنی بندرگاہی شہر الحدیدہ پر اپنے فضائی حملوں کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ گزشتہ چند روز میں عرب اتحاد نے اس یمنی شہر پر زبردست فضائی حملے کیے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے جمعرات پندرہ نومبر کے روز عینی شاہدین اور حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ عرب عسکری اتحاد کی جانب سے زمینی فورسز کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ حدیدہ میں اپنی پیش قدمی روک دے۔
عرب اتحاد کی جانب سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب واشنگٹن انتظامیہ نے واضح انداز میں کہا ہے کہ یمنی تنازعے کے فریقین فائربندی کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں۔
یہ بات اہم ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں صدر منصور ہادی کی حامی فورسز نے عرب عسکری اتحاد کی مدد سے اس ملک کے اہم بندرگاہی شہر الحدیدہ پر قبضے کے لیے بڑی کارروائیاں کی ہیں، جن میں درجنوں افراد مارے گئے۔ دوسری جانب اس بندرگاہ کی بندش کی وجہ سے اقوام متحدہ بھی خبردار کر چکا ہے کہ یمنی تنازعے سے متاثرہ لاکھوں انسانوں تک اشیائے خوراک اور دیگر امدادی سامان کی فراہمی تعطل کا شکار ہو رہی ہے، جس سے قحط کا خطرہ ہے۔
روئٹرز نے ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عسکری پیش قدمی روکنے کا یہ فیصلہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ تاہم عرب فوجی اتحاد کی جانب سے فی الحال اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے یمن مارٹن گریفتھس اس کوشش میں ہیں کہ یمنی تنازعے کے فریقین کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر واپس لایا جائے۔ ستمبر میں اس سلسلے میں مذاکرات میں حوثی باغی شریک نہیں ہوئے تھے۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحادی فورسز سن 2015ء سے اس جنگ میں شامل ہیں تاکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کو دوبارہ اقتدار میں لایا جائے۔ دوسری جانب ملک کے ایک بڑے حصے پر ایران نواز حوثی شیعہ باغی قابض ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں منصور ہادی کی حامی فورسز نے کئی علاقے حوثی باغیوں سے واپس بھی لے لیے ہیں۔