یمنی مصور نے جنگ سے تباہ حال دیواروں کو اپنا کینوس بنا لیا
4 جون 2023
علاء روبیل بمباری سے متاثرہ اپنے گھر کی دیواروں کو کینوس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ یمنی مصور اپنی تخلیقات میں جنگی متاثرین کی مایوسی، ان کی زندگیوں اور اموات کی عکاسی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/Y. Arhab
اشتہار
یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ چھڑنے کے کچھ عرصے بعد ہی بندرگاہی شہر عدن میں گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ عدن علاء روبیل کا آبائی شہر بھی ہے۔
اُس وقت ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا تھا کہ عدن میں 2015ء میں کئی ماہ تک گنجان آباد علاقوں میں توپ خانوں سے گولے برسائے گئے اور راکٹ فائر کیے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں شہری مارے گئے۔
روبیل جو کہ اب 30 سال کے ہیں، اپنی نوعمری سے ہی دیواروں پر نقش و نگاری کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے فن کو زبان، تشدد کا ایک طویل سفر دیکھنے کے بعد ملی ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے دیکھا کہ حکومت کو لا پتا ہونے والوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ میں اپنے فن کے ذریعے ان لوگوں کا پیغام دنیا بھر تک پہنچانا چاہتا ہوں، جو اس لڑائی کی وجہ سے اپنا گھر اور خاندان کھو بیٹھے ہیں۔‘‘
یمن کی کئی سالہ جنگ میں اب تک ہزاہا بچے مارے جا چکے ہیںتصویر: Reuters/M. al-Sayaghi
آج عدن کی سڑکوں پر بکھرا ہوا ملبہ روبیل کے فن پاروں کی ایک نمائش کا روپ دھارے ہوئے ہے اور یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ شہری کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
بمباری سے متاثرہ علاقے کی ایک دکان کی دیوار پر انہوں نے ایک ایک ایسے آدمی کا چہرہ بنایا، جس نے اپنے چہرے کو بارودی مواد سے چھپایا ہوا تھا۔
گلی کے دوسری جانب ایک تباہ شدہ رہائشی عمارت کے اندرونی حصے پر انہوں نے وائلن بجاتا ہوا ایک انسانی ڈھانچہ بنایا ہے اور اپنے اس شاہکار کو انہوں نے ' سائیلنٹ سفرنگ‘ کا نام دیا۔ اس ڈھانچے کی کھوپڑی کے گرد امن کی علامات بھی بنائی ہیں۔
ایک اور تخلیق میں ایک لڑکی سرخ جوڑا پہنے زمین پر بیٹھی ہے اور اس کا سر اس کے بائیں ہاتھ میں ہے اور اس کے قریب ایک کالا کوا میزائل پر بیٹھا ہے،''اس لڑکی کے پیچھے اس کے انتقال کر جانے والے رشتہ دار سیاہ اور سفید لباس میں کھڑے کھڑکی سے نیچے دیکھ رہے ہیں۔‘‘
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
11 تصاویر1 | 11
روبیل کا کہنا ہے کہ یہ تصویر حقیقی کہانی پر مبنی ہے، ’’اس جگہ رہنے والی لڑکی نے لڑائی کے دوران اپنے گھر والے کھو دیے۔ اس کو لگتا ہے کہ جنگ ایک کھیل ہے اور اس کا خاندان واپس آ جائے گا، تبھی وہ ان سب کا انتظار کر رہی ہے۔
قریب ہی میں رہنے والے بیالیس سالہ امر ابوبکر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس پینٹگ کے ذریعے ان مرنے والوں کو ایک طرح کا خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، ''جب ہم اس جگہ سے گزرتے ہیں تو ہم درد محسوس کرتے ہیں اور ان لوگوں کو محسوس کرتے ہیں جو یہاں موجود تھے۔‘‘
امر ابوبکر نے کہا کہ یہ فن پارے ان لوگوں کے درد اور دکھوں کی عکاسی کرتی ہیں، جن کے گھر تباہ ہو گئے اور وہ بے گھر ہو گئے۔
تقریبا آٹھ سال قبل یعنی 2014ء میں حوثی باغیوں نے یمنی دارالحکومت پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد نے حوثیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے جبکہ ہزاروں یمنی شہری بھوک اور قحط سالی کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، ان کے گھر اور خاندان تتر بتر ہو گئے۔
عدن کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں اپنے برش اور پینٹ کو ہاتھ میں اٹھائے روبیل نے کہا، ''مجھے اس خیال سے بھی محبت ہے کہ یہ جگہ تباہی کے ایک مرکز سے امن کے گہوارے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔‘‘ ان کو امید ہے کہ آرٹ اس شہر کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔