یمن: امن مذاکرات قلیل وقفے کے بعد بحال
4 مئی 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یمنی حکومت کی جانب سے احتجاج کی وجہ سے امن بات چیت میں تین دن کا وقفہ آ گیا تھا۔ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعاء کے قریب ایک فوجی چھاؤنی پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد حکومتی وفد نے مذاکرات سے دوری اختیار کر لی تھی۔
اقوام متحدہ کے ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد کی جانب سے ٹویٹر پر ایک تصویر جاری کی گئی ہے، جس میں تنازعے کے فریقین کو ایک میز پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول بدھ کے روز فائر بندی کے کمزور معاہدے کو مضبوط بنانے کے موضوع پر تبادلہء خیال کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ فریقین طے شُدہ ایجنڈے کے مطابق آج اپنی بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔
دس اپریل سے یمن میں فائر بندی پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور ملک کے زیادہ تر علاقوں میں اس کی پاسداری بھی کی جا رہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود کچھ علاقوں میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔
ایران نواز حوثی باغی اور سعودی عرب کی پشت پناہی والی جلا وطن یمنی حکومت فائر بندی کے ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں میں ہیں تاکہ تباہ شدہ اور انسانی بحران کے شکار علاقوں میں امدادی کام کیا جا سکے۔ یمن کا شمار جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یمن کے خونریز تنازعے میں گزشتہ سال مارچ سے لے کر اب تک چھ ہزار چار سو سے زائد افراد ہلاک اور 2.8 ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔
یمن میں خانہ جنگی اس وقت شدید ہوئی جب گزشتہ برس 26 مارچ کو حوثیوں نے کارروائی کرتے ہوئے ملکی حکومت کو جلا وطنی پر مجبور کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مذاکرات کے فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بات چیت میں بین الاقوامی تفتیش کاروں کو بھی شامل کریں تاکہ دونوں جانب سے کیے جانے والے جنگی جرائم کے مبینہ واقعات کی غیر جانبدار تحقیقات کرائی جا سکیں۔ اس بیان کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے ابھی تک سعودی اتحاد کی جانب سے اندھا دھند بمباری اور حوثی کی طرف سے بارودی سرنگوں کے استعمال کے کسی بھی واقعے کی اصل حقیقت سامنے نہیں آ سکی ہے۔