یمن: دو بم دھماکے، چاليس سے زائد افراد ہلاک
23 مئی 2016آج صبح یمن کے مرکز میں ہونے والے دو بم دھماکوں نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پہلے حملہ آور نے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار کے گھر کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اس گھر کے قریب کھڑے وہ نوجوان ہلاک ہوئے، جو فوج میں بھرتی ہونے کے خواہش مند تھے اور ان کے ناموں کا اندراج جاری تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں اعلیٰ فوجی عہدیدار محفوظ رہا ہے۔ اس عہدیدار نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
دوسرے حملے میں فوجی بھرتی کرنے والے ایک کیمپ کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ان دو حملوں کے نتیجے میں کم از کم دو درجن افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
ابھی تک حتمی طور ہلاکتوں کی تعداد کا بھی علم نہیں ہو سکا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ حملےکیسے کیے گئے؟ تاحال کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم اسی طرح کا ایک حملہ گزشتہ ہفتے بھی ہوا تھا، جس میں ستائیس افراد مارے گئے تھے۔ یہ حملہ بھی فوجیوں کی بھرتی کرنے والے ایک کیمپ پر کیا گیا تھا اور بعد ازاں اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی تھی۔ حالیہ چند ماہ کے دوران جنگ زدہ یمن میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری داعش قبول کر چکی ہے۔
یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں اور سعودی عرب کے اتحادیوں کے مابین لڑائی جاری ہے اور داعش اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ قبل ازیں سن دو ہزار گیارہ میں صدر علی عبداللہ صالح کو احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے تینتیس برس بعد بے دخل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد سے یہ ملک افراتفری کا شکار ہے۔ دوسری جانب جنوب میں دوبارہ یمن سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک سر اٹھا رہی ہے۔ جنوب کے علیحدگی پسند جنوبی سوشلسٹ ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر صالح نے ہی انیس سو نوے میں جنوبی یمن کو شمالی یمن سے ملایا تھا۔
یمن کا اتحاد شروع ہی سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔ انیس سو چورانوے میں یمن میں خونریز خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور شمالی یمن کی فورسز کی جیت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب کے لوگ ابھی تک شمالی یمن والوں کو قابض سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب یمن القاعدہ اور داعش کے عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے بھی متاثر ہوا ہے اور امریکا ابھی تک وہاں ان کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔