یمن سے متعلق قرارداد سلامتی کونسل میں
21 اکتوبر 2011سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس قرارداد میں ان حکومتی کارروائیوں کے ذمہ دار عناصر کے کڑے احتساب کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ ووٹنگ نیویارک کے مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے (عالمی وقت شام سات بجے) ہو گی۔ نائیجیریا نے، جس نے آج کل اپنی باری کے مطابق سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال رکھی ہے، سفارت کاروں کے ان بیانات کی تصدیق کر دی ہے۔
مغربی دُنیا کے سفارت کاروں کو امید ہے کہ پندرہ رُکنی سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا جائے گا۔ یہ قرارداد عرب دُنیا کے اِس غریب ترین ملک میں اُن احتجاجی مظاہروں کے چھ ماہ سے زائد عرصے بعد پیش کی جا رہی ہے، جو تیونس، مصر اور لیبیا کی عوامی احتجاجی تحریکوں کو دیکھتے ہوئے شروع ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو اس قرارداد کا جو مسودہ ملا ہے، اُس کی عبارت کی شدت اُس سے کہیں کم ہے، جس کا منگل کو یمنی مظاہرین کی خاتون رہنما توکل کرمان نے نیویارک ہی میں مطالبہ کیا تھا۔واضح رہے کہ توکل کرمان کو اسی مہینے کے اوائل میں لائبیریا کی دو خواتین کے ہمراہ امن کا نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
برطانیہ کے تیار کردہ مسودے میں صدر علی عبداللہ صالح پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خلیجی تعاون کونسل کی طرف سے تیار کیے گئے منصوبے پر دستخط کر دیں۔ تاہم نیویارک میں ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کرمان نے اقوام متحدہ سے یہ پُر زور اپیل کی کہ خلیجی عرب ممالک کے تیار کردہ اِس منصوبے کو مسترد کر دیا جائے، جس کے تحت صدر علی عبداللہ صالح کو سزا سے بریت کی ضمانت دی گئی ہے۔
کرمان نے صدر صالح کو ’جنگی جرائم کا مرتکب‘ شخص قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نہ صرف صالح کے تمام اثاثے منجمد کیے جانے چاہییں بلکہ اُن کے کیس کو بین الاقوامی تعزیری عدالت کے بھی سپرد کیا جانا چاہیے۔
توکل کرمان نے بدھ کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور اقوام متحدہ میں فرانسیسی سفیر جیرار ارود کے ساتھ ساتھ کئی دیگر سرکردہ شخصیات کے ساتھ بھی ملاقات کی اور اپنے مطالبات کا اعادہ کیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران یمن میں مزید درجنوں مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ مغربی سفارت کاروں کو امید ہے کہ روس اور چین بھی یا تو اِس قرارداد کے حق میں ووٹ دیں گے اور یا پھر اپنا حق رائے دہی محفوظ رکھتے ہوئے قرارداد منظور ہونے دیں گے۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: ندیم گِل