یمن: صدر صالح کا فوری اقتدار چھوڑنے سے انکار
25 اپریل 2011صدر علی عبداللہ صالح کا یہ تازہ بیان ان کے گزشتہ اعلان کے برخلاف ہے جس میں انہوں نے اقتدار چھوڑنے اور نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔
علی عبداللہ صالح نے ہفتہ کے روز ہی یہ وعدہ کیا تھا اور یمن میں حکمران جماعت نے بھی ملک میں جاری بد امنی اور عوامی احتجاجی لہر کے خاتمے کے لیے عرب ریاستوں کی خلیجی تعاون کی کونسل کے اس منصوبے کی منظوری دے دی تھی کہ اپوزیشن کے ساتھ تحریری معاہدہ طے پا جانے کے ایک ماہ کے اندر اندر صدر صالح مستعفی ہو جائیں گے اور سربراہ مملکت کی ذمہ داریاں نائب صدر کے حوالے کر دیں گے۔
صدر صالح کا اب یہ کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ اقتدار مظاہرین کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے اپنے خلاف کئی ماہ سے جاری مظاہروں کو ’بغاوت‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا: ’میں اقتدار کس کے حوالے کروں؟ وہ جو بغاوت کرنا چاہ رہے ہیں؟‘
صدر علی عبداللہ صالح کا کہنا ہے کہ پہلے ملک میں انتخابات ہوں گے جن کی نگرانی بین الاقوامی مبصرین کریں گے۔
گو کہ مظاہرین نے ابتدائی طور پر صدر صالح کی قومی حکومت کے قیام اور اقتدار اپنے نائب کے حوالے کرنے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے مظاہرے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا تاہم صدر صالح کے تازہ انٹریو سے چند گھنٹوں قبل انہوں نے بعض ’تحفظات‘ کے ساتھ خلیجی تعاون کونسل کے منصوبے کی حمایت کردی تھی۔
یمنی حزبِ اختلاف کے ایک اہم دھڑے کے ترجمان نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: ’یہ منصوبہ مناسب معلوم ہوتا ہے مگر صدر صالح کو پہلے جانا ہوگا اور ایک قومی حکومت قائم کرنا ہوگی۔‘
صدر صالح کا کہنا ہے کہ ان کے اقتدار چھوڑنے سے ملک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے اور یمن میں القاعدہ جیسی تنظیمیں طاقتور ہو سکتی ہیں۔ صدر صالح گزشتہ بتیس برسوں سے یمن میں برسرِ اقتدار ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل