یمن: صدر نے حکومت کو فارغ کردیا
21 مارچ 2011عینی شاہدین کے مطابق صدر صالح کے خلاف مظاہروں کے آغاز سے اب تک صنعاء میں یہ حکومت مخالف افراد کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ واضح رہے کہ یمن میں حکومت مخالف مظاہرے جنوری میں شروع ہوئے تھے۔
کئی ہفتوں سے جاری ان مظاہروں اور حکومتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تشدّد کے نتیجے میں اب تک کم از کم اسی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتوار کے روز ہزاروں کی تعداد میں افراد جامعہِ صنعاء کے قریب حکومت کی جانب سے سخت ترین سکیورٹی اور ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود ایک چوک پر جمع ہوئے۔
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ نے یمن کی حکومت کی جانب سے مخالفین پر تشدّد کی شدید مذمّت کی ہے۔
یمن کی سرکاری نیوز ایجنسی صبا کے مطابق صدر صالح نے حکومت کو برطرف کردیا ہے تاہم کابینہ نئی حکومت کے قیام تک کام کرتی رہے گی۔ صدر کی جانب سے حکومت کی رخصتی کو مبصرین صدر کی مخالفین کو مزید احتجاج سے روکنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی برطرفی یمن میں جاری بحران کا حل نہیں ہے اور ملک میں ایک وسیع تر مکالمے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے لیے یمن کے سفیر عبداللہ الاسدی اور یمن کے انسانی حقوق کی وزیر ہدیٰ البان نے اپنے عہدوں تے مستعفی ہو کر صدر صالح کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
اتوار کے روز مقتولین کی تدفین کے موقع پر مظاہرین نے حکومت اور صدر صالح کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ ’شہداء کا خون رائگاں نہیں جائے گا‘۔
صدر نے مظاہرین کی ہلاکتوں کا الزام خود مظاہرین پر ہی لگا دیا ہے۔ صدر کی جانب سے اتوار کو ملک گیر سوگ کا بھی اعلان کیا گیا تھا تاہم حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر گولیاں چلانے کے احکامات صدر نے دیے تھے اور اب وہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق