سعودی عرب کی اتحادی فورسز کی جانب سے یمن کے علاقے الحدیدہ کی ایک جیل پر کیے گئے ایک فضائی حملے میں کم از کم پینتالیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اتحادی فورسز نے، جس وقت یہ حملہ کیا، اس وقت جیل میں چوراسی قیدی موجود تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Y. Arhab
اشتہار
یمن سے موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اتحادی فورسز کے اس حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق طبی حلقوں کے علاوہ ہلاک ہونے والے قیدیوں کے رشتہ داروں نے بھی کی ہے۔ اتحادی فورسز کے لڑاکا طیاروں نے ہفتہ انتیس اکتوبر کی شام جیل پر کم از کم تین مرتبہ حملے کیے۔ تقریبا چالیس ہزار نفوس پر مشتمل ساحلی شہر الحدیدہ پر یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی شیعہ باغیوں کا کنٹرول ہے۔
ان تازہ حملوں کے بارے میں عرب اتحادی فورسز کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اس واقعے سے پہلے ہفتے کے روز یمن کے تیسرے بڑے شہر تعز کی ایک رہائشی عمارت پر بھی اتحادی فورسز کے ایک حملے میں کم از کم سترہ افراد مارے گئے تھے۔
سن 2014 میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ صدر عبد ربه منصور ہادی کو اقتدار سے نکال دیا تھا جبکہ مارچ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والی عرب فورسز نے ہادی کی حکومت کی بحالی کے لیے حوثی باغیوں کے خلاف جنگ شروع کر دی تھی۔
ہفتے کے روز اقوام متحدہ نے یمن کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا تھا کہ لیکن جلاوطن رہنما ہادی نے اسے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اس سے مزید خون خرابہ، تباہی اور جنگ ہوگی۔ گزشتہ روز سعودی شہر ریاض میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد سے گفتگو کرتے ہوئے منصور ہادی کا کہنا تھا، ’’اس منصوبے سے باغیوں کو مزید مراعات حاصل ہوں گی اور یمنی عوام کے حقوق کی حق تلفی۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز کی اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے اس نئے امن منصوبے میں ہادی کو اقتدار سے الگ رکھنے اور ان کی جگہ غیر متنازعہ شخصیات کو حکومت میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
یمن کا شمار عرب کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس ملک میں جنگ کے آغاز سے اب تک دس ہزار سے زائد افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد تقریباﹰ تیس لاکھ بنتی ہے۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔